وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں مالی سال 2025 کا بجٹ پیش کر دیا ہے جس کے مطابق وفاقی بجٹ کا حجم 18 ہزار ارب روپے سے زائد، ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 12 ہزار 970 ارب روپے مقرر ہے۔
وفاقی بجٹ میں قرض، سود کی ادائیگیوں پر 9 ہزار 7 سو ارب روپے تک خرچ کیے جانے، بجٹ کا خسارہ ساڑھے 9 ہزار ارب روپے سے زائد ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ٹیکس آمدن کا تخمینہ 13 ہزار 320 ارب روپے اور نان ٹیکس آمدن کا تخمینہ 2103 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ براہ راست ٹیکسوں کا حجم 5 ہزار 291 ارب روپے رکھنے کا امکان ہے، وفاقی ایکسائز ڈیوٹی 672 ارب، سیلز ٹیکس 3 ہزار 855 ارب روپے وصولی کا اندازہ ہے۔
بلاشبہ وفاقی بجٹ انتہائی مشکل معاشی حالات میں پیش کیا گیا ہے، پاکستان کو حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے معاشی پالیسی اسی طرح ترتیب دینے کی ضرورت تھی کہ اگلے جائزے میں ملک آئی ایم ایف کے اہداف پر پورا اتر سکے۔ بجٹ میں جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ ایسے اہداف ہیں جیسے بنیادی خسارے اور محصولات کے اہداف، ترقیاتی منصوبوں میں اخراجات کی مختص حد، بیرون ملک سے آنے والی مالی امداد اور شاید ان چیزوں پر نظر کہ ملکی اخراجات کو کس کس طرح کم کیا جا سکتا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے مشکل فیصلوں کے بارے میں بات کی جو نظام کو درپیش مسائل دور کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ حقیقی مشکل فیصلوں کے لیے متوسط اور غریب طبقات سے بات کرنے کی ضرورت ہے اور یہ جانیں کہ گزشتہ تین برسوں سے انھوں نے ریکارڈ توڑ مہنگائی کا کس طرح مقابلہ کیا ہے۔
حکومت کو توقع ہے کہ مالیاتی استحکام کے اقدامات کی وجہ سے مالیاتی خسارہ کم ہوجائے گا، ٹیکس ریونیو میں اضافہ اور سبسڈیز سمیت غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے پر توجہ دی جائے گی، اگلے سال گھریلو اوسط افراط زر 12 فیصد تک اعتدال پسند ہونے کی توقع ہے۔
دوسری جانب اتنے میزانیے گزر جانے کے باوجود چند مسائل وہی ہیں جن کا سامنا ہمیں آج بھی ہے جیسے بیرونی قرضوں کا بوجھ، حکومت کے لیے ریونیو حاصل کرنے کے محدود ذرائع، توانائی کا بوسیدہ نظام، ملک میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو غذائیت کی کمی اور تعلیم کی سہولیات سے محرومی جب کہ معاشرے کے خراب حالات نے سب کو پریشان کیا ہے۔
کفایت شعاری یعنی ملکی اخراجات کم کرنے، معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بیرونی قرضے لینا اور پھر اسے ادا کرنے کے لیے اخراجات میں مزید کٹوتی کرنا، اس دائرے نے ہمارے ملک کے لیے ایک غلط مثال قائم کی ہے۔ اس روش نے عوام اور نظام کے درمیان ایک خلا پیدا کردیا ہے۔ دراصل ہر حکومت میں ہر بجٹ خسارے کا ہوتا ہے اور یہ خسارہ کبھی بھی کم نہ ہو سکا۔ ہم نے کبھی چادر دیکھ کر پاؤں نہیں پھیلائے اور نہ ہی کبھی اس بارے میں سوچا بھی ہے۔
اس لیے آئے روز ہمارے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ملک کو اس وقت زرمبادلہ کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے، فی کس آمدنی خطے کے بیشتر ممالک سے مزید کم ہو چکی ہے، ایسے حالات میں ایک متوازن بجٹ پیش کرنا قابل ستائش ہے۔
دوسری جانب جب بھی کچھ حد تک معیشت اچھی ہوتی ہے، عمومی طور پر اس سے فائدہ اٹھانے والا دولت مند طبقہ ہوتا ہے اور جب بھی معاشی بحران آتا ہے، حکومت سخت اقدامات کرتی ہے جس کی لپیٹ میں غریب اور متوسط طبقہ آتا ہے۔ بجٹ 25-2024 بھی کچھ مختلف نہیں۔ سالانہ بجٹ میں موبائل، سیمنٹ، کاغذ، امپورٹڈ گاڑیاں مہنگی اور جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔
برانڈڈ ملبوسات، جوتے، لیدر پروڈکٹس مہنگی کردی گئی ہیں جب کہ نان فائلر کیلیے خرید و فروخت اور کاروبار پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے غیر قانونی سگریٹ بیچنے والے جیل جائیں گے اور دکان سیل ہوگی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ نان فائلرز پر ٹیکس بڑھانے کا مقصد ریونیو اکٹھا کرنا ہے، ہولڈنگ کی مدت سے قطع نظر پندرہ (15) فیصد کی شرح سے ٹیکس وصول کرنے کی تجویز ہے۔
ان حالات میں پاکستان کو محصولات کے ایسے نظام کی ضرورت ہے جو قرضوں کی بیڑیاں توڑنے میں مدد دے سکے۔ ٹیکس کو صنعتی توسیع اور اقتصادی ترقی کے لیے ایک عمل انگیز (catalyst) کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ پاکستان کو معاشی طور پر ایک قابل عمل اور محفوظ مقام بنانے کے لیے راستے تلاش کرنے ہوں گے، جو مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کر سکیں۔
ہماری اقتصادی ترجیحات کی مکمل تبدیلی کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنی پیداواری صلاحیت، کارکردگی اور معاشی نمو کو بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے، جس سے ریاست کے لیے مزید محصولات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ہماری مخدوش معاشی صورت حال کی سب سے بڑی وجہ ناکارہ، کرپٹ اور فرسودہ اداروں کا وجود ہے، جو عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کی غیر ملکی آقاؤں کے حکم پر ٹیکس اور ریگولیٹری پالیسیوں نے لاکھوں لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے۔
ملک میں پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار ہیں، جن کے پاس روزگار ہیں، ان کی تنخواہیں بہت کم ہیں، درمیانہ طبقہ پھیلنے کے بجائے سکڑ رہا ہے جب کہ امیر اور مراعات یافتہ طبقے کا سائز بڑھ رہا ہے، پاکستانی امرا کے ترقی یافتہ مغربی ممالک کے پوش اور مہنگے علاقوں میں اپنے گھر ہیں، مہنگی ترین کاریں ہیں، پاکستان میں بھی ان کے محلات ہیں، نوکر اور ذاتی محافظ ہیں، لگژری کاریں ہیں، مگر ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب دنیا میں کم ترین ملکوں کی فہرست میں ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ ملک کا نظام چلانے کے لیے ٹیکس ضروری سمجھے جاتے ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں ادارے بہت زیادہ ٹیکس دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے، تمام ٹیکس غریبوں پر لگائے جاتے ہیں، صنعتوں پر ٹیکس کا معاملہ یہ ہے کہ صنعتکار پہلے تو ذاتی و سیاسی اثر رسوخ رکھنے کی وجہ سے ٹیکس نہیں دیتے، اگر کوئی صنعت کار 10 فیصد ٹیکس دے بھی دیتا ہے تو وہ اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ کر دیتا ہے جو کہ لامحالہ غریب صارفین کو ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔
اگر اشرافیہ کی ناز برداریاں پہلے کی طرح موجود ہیں، اگر افسر شاہی کے اللے تللے، مراعات اور اس کے کلب موجود ہیں، اگر بعض اعلیٰ مناصب پر فائز لوگوں کو ٹیکس سے استثنیٰ اسی طرح حاصل ہے، اگر نان فائلر نامی طبقہ اور اصطلاح اسی طرح قائم دائم ہے، اگر معیشت دشمن بیوروکریسی کا ڈھانچہ وہی کا وہی ہے تو بجٹ کا یہ گورکھ دھندا مصائب میں اضافہ تو کر سکتا ہے کمی نہیں۔ بقول وفاقی وزیر خزانہ ،کرنٹ خسارہ کم ہوا ہے ریونیو کلیکشن میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے ٹیکس وصولی مثالی رہی ہے زر مبادلہ کے ذخائر کا معیار شاندار رہا مہنگائی کی شرح 48 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد تک آگئی۔
اس میں مزید کمی کا بھی یقین ظاہر کیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ کے اقتصادی سروے سے تو لگتا ہے کہ ہم ترقی اور خوشحالی کے دروازے پر کھڑے ہیں اور یہ دروازہ اگلے مالی سال 2024،2025میں کھل جائے گا۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 سے 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا اعلان تو کیا گیا لیکن پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے کمپنی مالکان کو ہدایات جاری نہیں کی گئیں۔ وفاقی اور صوبائی تمام حکومتیں اپنی آئینی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہی ہیں اور صحت اور تعلیم کے نام پر عوام کو لوٹنے کے لیے پرائیویٹ پارٹیوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔
ان تجارتی منصوبوں پر ٹیکس لگانے اور سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی بہتری کے لیے رقم خرچ کرنے کی کوئی پالیسی حکومت کے زیر غور نہیں ہے۔ ان شعبوں کے لیے مختص کیے گئے معمولی فنڈز کو افسران ضایع کر دیتے ہیں، طالب علموں اور مریضوں کو سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں میں امتیازی سلوک ملتا ہے۔ دوسری طرف پرتعیش کلب، گولف کورسز اور ریسٹ ہاؤس جو بالائی طبقے کی خدمت کرتے ہیں عوامی فنڈز سے گرانٹ وصول کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کس طرح ٹیکس دہندگان کے پیسے پر ترقی کرتے ہیں اور غیر ملکی فنڈنگ کا استحصال کرتے ہیں، یہ ایک کھلا راز ہے۔
وسائل کے اس بے تحاشہ ضیاع نے امیروں اور طاقتوروں پر ٹیکس نہ لگانے کے ساتھ، پاکستان کے لیے مختلف قسم کے بحرانوں، آبادی کی اکثریت کے لیے انتہائی غربت، بے روزگاری، سست اقتصادی ترقی، قرضوں کے جال، ناقص انفرا اسٹرکچر، خوفناک مالیاتی اور تجارتی خسارے کو جنم دیا ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی اور کرنٹ اکاؤنٹ کا بڑا خسارہ۔پاکستان میں وفاق، صوبوں اور مقامی حکومتوں کے درمیان مالیاتی اور ٹیکس لگانے کے اختیارات کی منصفانہ تقسیم پر نظرثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
حقیقی صوبائی خودمختاری کی ضمانت صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب ٹیکس کے اصول پر عمل کیا جائے۔ صوبوں کو ان کے وسائل اور مالیات پر خصوصی حق دیں اور انھیں ٹیکس مقامی حکومتوں کو منتقل کرنا چاہیے تا کہ بنیادی جمہوریت اور عوامی خدمات کے لیے فنڈز کا استعمال اور ضمانت دی جا سکے۔ہمیں خطے میں پاکستان کی ناقابل تردید جیو اسٹرٹیجک اور کاروباری مسابقتی پوزیشن کو بحال کر کے اس رجحان کو تبدیل کرنے کے لیے تیزی سے اور فیصلہ کن طور پر آگے بڑھنا ہو گا۔ پاکستان کو رہنے، کام کرنے اور سرمایہ کاری کے لیے ایک باعزت مقام بنانے کے لیے ضروری اور سخت فیصلے لینے کی فوری ضرورت ہے۔