لام آباد: بلوچ طلبہ بازیابی کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ یہ لاپتہ افراد کے مسائل ریاست کے لیے محبت پیدا نہیں کر رہے، انہیں نہیں معلوم کہ ایسے اقدامات سے ریاست کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ طلبہ کی بازیابی سے متعلق کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی، درخواست گزار ایڈووکیٹ ایمان مزاری اور اسٹنٹ اٹارنی جنرل عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی، سی ٹی ڈی، ایف آئی اے کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، کیا خفیہ اداروں کی کمیٹی نے کوئی ورکنگ کی ہے؟ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ اگر عدالت عید کے بعد کا وقت دے دے، جس پر جسٹس محسن نے ریمارکس دیے کہ جو مسنگ ہیں انہوں نے بھی عید کرنی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی دوران سماعت عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ میں ہائی لائٹ کرنا چاہتی ہوں ادھر کوئی اور بیان دیا جاتا ہے بلوچستان میں کچھ اور ہوتا ہے، ایک طالب علم انیس الرحمن ابھی مسنگ ہیں باقی طالب علم بازیاب ہوئے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اب لانگ ٹرم مسنگ کا معاملہ شارٹ ٹرم مسنگ کی شکل اختیار کر رہا ہے، کسی لیول پر پالیسی میکرز سے کسی نے سوال کیا، وہ محسوس نہیں کر رہے کہ کس طرح نفرت بڑھ رہی ہے، ان میں ضرور دہشت گرد بھی ہوں گے لیکن جو بھی ہونا ہے قانون کے مطابق ہونا ہے۔
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ پہلے لاپتہ کرتے ہیں پھر سی ٹی ڈی کے حوالے کر دیتے ہیں اب یہ معاملہ پورے ملک میں بڑھ رہا ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ عدالتوں میں بھی اس کا فقدان ہے کہ ہم صرف ریکوری پر فوکس کرتے ہیں، ہر ایکشن کا ایک ری ایکشن ہوتا ہے، انہیں نہیں معلوم کہ ایسے اقدامات سے ریاست کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے، عدالتوں نے بھی ابھی تک صرف لاپتہ افراد کی ریکوری پر فوکس کیا، ہم کبھی اس سے آگے نہیں گئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ جس طرح اٹارنی نے کیا تھا لاپتہ افراد کے حوالے سے پراگریس ہوئی ہے، خفیہ اداروں کے ممبران اور چیئرمین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ٹارنی جنرل کو گزشتہ سماعت پر تین مسنگ پرسنز کے کیسز کا بتایا گیا تھا، اس کا کیا ہوا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل جواب دیا کہ 95 میں سے 91 کو ابھی تک ٹریس کیا جا چکا ہے، ہم نے پوری کوشش کی ہے، کوئی بدنیتی شامل نہیں۔
جسٹس محسن کیانی نے ریمارکس دیے کہ یہ بدنیتی کا تو کیس ہی نہیں ہے، یہ تو ریاستی ادارے کے خلاف کیس ہے، کیا کمیٹی بن گئی ہے؟ صرف نوٹیفکیشن ہونا ہے اب؟ ہم نے تو اٹارنی جنرل کی ریکوئسٹ پر کمیٹی کی تشکیل میں تبدیلی کی بھی اجازت دی تھی، ہم نے مسنگ پرسنز کے کیسز کے لیے معاملہ لارجر بینچ کو بھجوایا تھا، کریمنل جسٹس کمیٹی کی بھی ایک میٹنگ ہوتی ہے جس میں ہم ایشوز کو دیکھتے ہیں، اس میں بھی آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے ڈی جیز کو بلانے کا کہا تھا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ایک کمیٹی ایڈمنسٹریشن سائیڈ پر ہے اس میں خفیہ اداروں کے سربراہان کو بلائیں گے، وہ صرف لاپتہ افراد کی حد تک بریف کریں گے، بہت سے کیسز نیشنل سیکیورٹی سے متعلقہ ہیں ہم ان کو اِن کیمرہ کر لیں گے، ہمیں لاپتہ افراد کے حوالے سے اِن کیمرہ بریفنگ دیں یہ لاپتہ افراد کا ایشو حل ہونا چاہیے، یہ لاپتہ افراد کے مسائل ریاست کے لیے محبت پیدا نہیں کر رہے، اس کے بعد یہ ہوگا کہ ہم آپ کو نہیں کہیں گے، انہیں ڈائریکٹ بلا کر پوچھیں گے۔
جسٹس محسن نے ریمارکس میں کہا کہ ایجنسیوں کا اپنا کام ہے، انہیں کام سے نہیں روک رہے، اگر ایک آدمی کو ایجنسیوں کے پاس رکھ کر بعد میں سی ٹی ڈی نے 500 گرام دھماکا خیز مواد ڈالنا ہے، اس سے تو پھر صرف عدالتوں کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار بھی یہاں نہیں آ رہے، عدالتیں فرسٹریٹ ہو کر کیس بند نہیں کر دیتیں، وہ فیصلہ دیتی ہیں، اداروں پر الزام لگ رہے ہوتے ہیں، انہوں نے پرفارم کرنا اور الزام کو غلط ثابت کرنا ہوتا ہے، 95 میں سے 91 لوگ ٹریس ہوئے، ابھی تک ہم نے انہیں بلا کر بیانات ریکارڈ نہیں کیے۔
عدالت نے ایڈووکیٹ ایمان مزاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مجھے تو یہ نظر آتا ہے یہ لڑکی ایک پورے پاکستان کی طرف سے کھڑی ہے، 95 میں سے 91 افراد لاپتہ ریکور ہوئے جس دن ان کے بیانات ریکارڈ کریں گے آپ کی آدھی حکومت آفیشلز پراسیکیوٹ ہو جائے گی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد کی فیملیز اپنے بچوں کے انتظار میں ہیں، اس حوالے سے تفصیلی آرڈر پاس کروں گا۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کر دی۔