دنیا کے تمام مذاہب میں قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ایک بڑا ذریعہ رہی ہے، اِس کی حقیقت وہی ہے جو زکوٰۃ کی ہے، لیکن یہ اصلاً مال کی نہیں، بلکہ جان کی نذر ہے جو اُس جانور کے بدلے میں چھڑا لی جاتی ہے جسے ہم اِس کا قائم مقام بنا کر قربان کرتے ہیں۔
ہم قربانی کیوں کرتے ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ہم قربانی اس لیے کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے قربانی کی اور قربانی کرنے کا حکم دیا، آپﷺ نے حج کے موقع پر بھی قربانی کی اور حج کے علاوہ ہر عید قربان پر بھی قربانی کی، قربانی ایک عمل ہے جس سے قربانی کے جانور کو معین دنوں میں اللہ کی راہ میں ذبح کرنے سے وہ کیفیت نصیب ہوتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنی شان کے مطابق نصیب ہوئی اور ہر مسلمان کو اپنی حیثیت ،اپنی استعداد، اپنے خلوص کے مطابق نصیب ہو تی ہے۔
قربانی کی حقیقت
قربانی کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی چیز، دنیا کا کوئی کام، کوئی محبت، کوئی پیار، کوئی عزیز ترین رشتہ، کوئی محبوب ترین شے اللہ کی اطاعت کے مقابلے میں رکاوٹ نہ بنے، ظاہر ہے کہ ہر عبادت کے اپنے انوارات اور اپنے ثمرات ہوتے ہیں اور ہر بندے کے الگ ہوتے ہیں کیونکہ ہر بندے کا اللہ سے رشتہ الگ ہوتا ہے، ایک ہی جگہ دس بندے نمازپڑھتے ہیں لیکن ہر ایک کی کیفیت الگ ہوتی ہے، اس کے ایمان، اس کے خلوص اور اس کے دل کی گہرائی کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔
اسی طرح ہر اطاعت پر بندے کی حیثیت کے مطابق انوارات و برکات نازل ہوتی ہے، اسی واقعہ میں دیکھیے ایک ابراہیم خلیل اللہ ایک اسماعیل ذبیح اللہ۔ دونوں اللہ کے اولوالعزم رسول ہیں، ایک ذبح کرنے والا، ایک ذبح ہونے والا اور یہ سب محض اللہ کے نام پر، اللہ کے حکم پر ساری محبتیں، سارے تعلقات، سارے رشتے، اپنا اور اولاد کا سارا مستقبل چھری کی ایک جنبش کے نیچے ہے۔
اس پر کس قسم کی رحمتیں نازل ہوں گی، کس طرح کی تجلیات برسی ہوں گی، کون سی کیفیات عطا ہوئی ہوں گی، اب یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے امت محمدیہ علیٰ صاحب الصلوٰۃ والسلام کو قربانی کرنے کا حکم دے دیا، آج ہمیں بطفیلِ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ نے یہ سعادت بخشی ہے کہ ہم بھی اللہ کی راہ میں جانور ذبح کریں اور ان رحمتوں کا،ان عنایات کا اور اللہ کی اس بخشش کا مزا لیں اور وہ کیفیات ہم پر بھی وارد ہوں۔
اس بخشش سے ہم بھی حصہ لیں تو یہ قربانی کی حقیقت ہے، عوام الناس کیلئے روئے زمین پر اللہ نے یہ رحمت کا دروازہ کھول دیا کہ جو مسلمان جہاں ہے وہ اس دن قربانی کرے تو اللہ کریم اسے وہی برکات عطا فرما دیتا ہے اور اسے سمجھ آجاتی ہے کہ دین کا مقصد کیا ہے؟دین مکمل اطاعت کا نام ہے۔
قربانی کی تاریخ
اِس کی تاریخ آدم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے، قرآن میں بیان ہوا ہے کہ اُن کے دو بیٹوں،(ہابیل اور قابیل) نے اپنی اپنی نذر اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کی تو ایک کی نذر قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی، بائبل میں صراحت ہے کہ ہابیل نے اِس موقع پر اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلونٹے بچوں کی قربانی پیش کی تھی۔ یہ طریقہ بعد میں بھی، ظاہر ہے کہ قائم رہا ہوگا۔ چنانچہ اِس کے آثار ہم کو تمام مذاہب میں ملتے ہیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے بعد، البتہ جو اہمیت و عظمت اور وسعت و ہمہ گیری اِس عبادت کو حاصل ہوئی ہے، وہ اِس سے پہلے، یقیناً حاصل نہیں تھی۔ اُنھیں جب یہ ہدایت کی گئی کہ وہ بیٹے کی جگہ جانور کی قربانی دیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اسمٰعیل کو ایک ذبح عظیم کے عوض چھڑا لیا ہے، اِس کے معنی یہ تھے کہ ابراہیم کی یہ نذر قبول کر لی گئی ہے اور اب پشت بہ پشت لوگ اپنی قربانیوں کے ذریعے سے اِس واقعے کی یاد قائم رکھیں گے، حج و عمرہ کے موقع پر اور عیدالاضحیٰ کے دن یہی قربانی ہے جو ہم ایک نفل عبادت کے طور پر پورے اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں۔
قربانی کا مقصد
اِس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے، ہم اپنی جان کا نذرانہ قربانی کے جانوروں کو اُس کی علامت بنا کر بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے ہیں تو گویا اسلام کی اُس ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس کا اظہار سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے فرزند کی قربانی سے کیا تھا، اِس موقع پر تکبیر وتہلیل کے الفاظ اِسی مقصد سے ادا کئے جاتے ہیں۔
یہ اگر غور کیجیے تو پرستش کا منتہاے کمال ہے، اپنا اور اپنے جانور کا منہ قبلہ کی طرف کر کے اور ’بِسْمِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ اَکْبَرُ‘ کہہ کر ہم اپنے جانوروں کو قیام یا سجدے کی حالت میں اِس احساس کے ساتھ اپنے پروردگار کی نذر کر دیتے ہیں کہ یہ درحقیقت ہم اپنے آپ کو اُس کی نذر کر رہے ہیں۔
قربانی کا قانون
اِس کا قانون یہ ہے: قربانی انعام کی قسم کے تمام چوپایوں کی ہو سکتی ہے، اِس کا جانور بے عیب اور اچھی عمر کا ہونا چاہیے، قربانی کا وقت یوم النحر10ذو الحجہ کو عید الاضحیٰ کی نماز سے فراغت کے بعد شروع ہوتا ہے، اِس کے ایام وہی ہیں جو مزدلفہ سے واپسی کے بعد منیٰ میں قیام کیلئے مقرر کیے گئے ہیں، اصطلاح میں اِنھیں ایام تشریق کہا جاتا ہے۔
قربانی کے علاوہ اِن ایام میں یہ سنت بھی قائم کی گئی ہے کہ ہر نماز کی جماعت کے بعد تکبیریں کہی جائیں، نمازوں کے بعد تکبیر کا یہ حکم مطلق ہے، اِس کے کوئی خاص الفاظ شریعت میں مقرر نہیں کئے گئے، قربانی کا گوشت لوگ خود بھی بغیر کسی تردد کے کھا سکتے اور دوسروں کو بھی کھلا سکتے ہیں۔
رب کریم کا احسان
رب کریم کا یہی وہ احسان ہے کہ اس نے ابراہیمؑ کے اس عمل میں نبی کریمﷺ کی امت کو شریک فرمایا اور قربانی کرنے کا حکم فرمایا، اسی تاریخ پر کرنے کا حکم فرمایا اور اس دن یومِ عید قرار دیا اور پھر اس قربانی پر وہ کیفیت نازل ہوئی، اس کیفیت کے اجر کو ہر انسان اپنی عملی زندگی کو پرکھ کر خود جان سکتا ہے، قربانی کا مقصد اس جذبے کو حاصل کرنا ہے جس سے بندہ اللہ کی خوشنودی کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہ کرے اور اس کے حصول کا ذریعہ اللہ نے قربانی رکھا ہے۔
حضورﷺ نے قربانی کرنے کا حکم دیا ہے اور سکھایا ہے کہ اللہ کی خوشنودی کیلئے قربانی کرو، یہ یقینی بات ہے کہ اگر ہم نے خلوص کے ساتھ قربانی کو تو صرف بکرا قربان نہیں ہوگا صرف جانور ذبح نہیں ہوگا بلکہ اللہ کی توفیق بھی عطا ہوگی کہ ہم اللہ کیلئے اپنے مفادات کو بھی قربان کر سکیں، ہم عبادات کے اوقات میں آرام قربان کر سکیں، ہم حلال کے مقابلے میں حرام کو چھوڑ سکیں۔
ہم بھوک قبول کر لیں اور حرام نہ کھائیں، جھوٹ بولنا چھوڑ دیں خواہ ایثار کرنا پڑے، کہیں نقصان بھی اٹھانا پڑے، اگر ہم نے حضورﷺ کے احکامات کے مطابق قربانی کی، خلوص کے ساتھ کی تو ہماری قربانی قبول ہوگی اور جب کوئی ذرہ ان انوارات کا نصیب ہوا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم میں عاداتِ ابراہیمی آنا شروع ہو جائیں گی ہم بھی اپنے مفادات اللہ کے احکام پر قربان کرنے کا حوصلہ پالیں گے۔
قربانی کے اس ایک نتیجے سے ہی ہم پرکھ سکتے ہیں کہ ہماری قربانی رسمی رواجی تھی یا خلوص کے ساتھ تھی، کیا میرے دل میں وہ جذبہ آیا ہے یا نہیں، ہر ایک کے دل کا حال یا اللہ جانتا ہے یا کسی حد تک بندہ خود اندازہ کر سکتا ہے، حقیقی قربانی تو ان لوگوں کی ہے جو سب کچھ اللہ کیلئے قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، حقیقی قربانی تو ان خوش نصیبوں کی ہے جو راہ حق میں کام آئے۔