پوری دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہی ہے، ماحول دشمن انسانی سرگرمیاں موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہی ہیں۔ مکہ میں شدید گرمی کے باعث 557 سے زائد عازمین حج جاں بحق ہوگئے، سعودی حکام کا کہنا ہے کہ مختلف اسپتالوں میں شدید گرمی کے باعث بیمار ہونے والے 2ہزار حاجی زیر علاج ہیں۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں میں شدید گرمی کا 6 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، بنگلہ دیش میں ہیٹ ویو نے کئی شہریوں کی جان لے لی۔ دوسری جانب پاکستان بھر میں گرمی کی شدید ترین لہر جاری ہے، مسلسل لوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے، عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں جب کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا نے خود گرڈ اسٹیشن میں داخل ہوکر بجلی بحال کردی۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہر فرد کو اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا۔ ان تبدیلیوں نے ’’موسموں‘‘ کی لذت سے آشنائی ختم کردی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ کوئلہ، گیس، تیل کا استعمال ہے۔ ان سے نکلنے والا ایندھن ماحولیاتی آلودگی کا بھی سبب ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تیل،گیس اور کوئلے کا استعمال جب سے شروع ہوا ہے تب سے دنیا تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوئی ہے۔
یہ ایندھن بجلی کے کارخانوں، ٹرانسپورٹ اورگھروں کو گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ روز بروز زمین پر درختوں کا کٹاؤ جاری ہے جس سے گرین ہاؤس گیسزکا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ پانی کا بے تحاشہ استعمال، صنعتوں میں ماحول دشمن سرگرمیاں مثلاً ماحول کو آلودہ کرنے والی گیس اور آلودہ پانی جوکہ آلودگی کا بڑا سبب بھی ہے۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی شامل ہے۔ اسی طرح ان فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاؤس گیسز خارج ہوتی ہیں جو سورج کی توانائی کو متاثرکرتی ہیں۔
اس برس اٹھارہ لاکھ افراد نے فریضہ حج ادا کیا، سعودی عرب حکومت نے ہمیشہ کی طرح بہترین انتظامات کیے تھے ، لیکن گرمی کی شدت کی وجہ سے قیمتی انسانوں جانوں کا ضیاع اس بات کا متقاضی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے لیے مزید حفاظتی اقدامات اور آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں پر نگاہ رکھنے والے جرمنی کے ایک ادارے نے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا ہے۔ جرمن واچ کی رپورٹ کے مطابق فلپائن اور ہیٹی کے بعد پاکستان، دنیا میں موسمی حالات کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ اور مستقل طور پر متاثرہ ملک ہے، حالانکہ یہ خرابی پیدا کرنے میں پاکستان کا کردار ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
پاکستان میں 2010 کا سیلاب اس سلسلے کی پہلی کڑی تھا، اسے ’’ سپرفلڈ ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان میں گرمی لہرکے دوران لوڈ شیڈنگ تمام صوبوں میں ہو رہی ہے،کیونکہ ہمیں توانائی کے بحران کا سامنا ہے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ اس مشکل وقت میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے متعلقہ محکمہ کے شیڈول و اختیارات میں مداخلت کر رہے ہیں، اس روش کو درست نہیں کہا جاسکتا، لوڈ شیڈنگ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے اور اسے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں اٹھایا جاسکتا ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے فورمز موجود ہیں تو پھر یہ سب کچھ کیوں؟ کیا خیبر پختون خوا میں بجلی چوری روکنے اور بلوں کی ریکوری کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟
ان سوالات کا جواب بھی صوبائی حکومت کو دینا ہے۔ مثال کے طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی کے لیے پورے صوبے میں گرینڈ آپریشن کرتے ہوئے تاریخ میں پہلی بار اضافی وصول کردہ کرائے کی رقم سواریوں کو واپس کروا دی۔ مجموعی طور پر 14 لاکھ 67 ہزار 921 روپے کی رقم سواریوں کو واپس کی گئی، سرکاری ریٹ سے زائد کرایہ وصول کرنے والے ٹرانسپورٹرز کو 27 لاکھ 84 ہزار 500 روپے کے جرمانے عائد کیے گئے، یعنی ڈپٹی کمشنرز متحرک ہوئے تو عوام کو ریلیف ملا توکیا خیبر پختون خوا حکومت کے کرتا دھرتا کسی ایک محکمے کے امور میں مداخلت کر کے عوام کو لاقانونیت کی ترغیب دے رہے ہیں چہ جائیکہ وہ بجلی چوری کی روک تھام کریں۔
دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندروں کا رنگ تبدیل ہو رہا ہے، یہ عمل گزشتہ 20 برسوں سے جاری ہے۔ برطانیہ کے مؤقر نشریاتی ادارے دی گارجین کے مطابق گزشتہ 20 برسوں کے دوران دنیا کے سمندروں کی رنگت میں تبدیلیاں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق دنیا کے آدھے سے زیادہ سمندروں کا رنگ تبدیل ہوا ہے جو زمین کے کل رقبے سے بھی زیادہ ہے اور غالب امکان ہے کہ اس کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہوگی۔ اس حوالے سے سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندروں کا رنگ گہرا نیلا ہوتا تھا جو اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سبز رنگ کا ہورہا ہے جو نہایت اہم ہے کیونکہ اس سے آنے والی مزید تبدیلیوں کی بابت علم ہوتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کو سالانہ 4 ارب ڈالرکا نقصان ہوتا ہے، پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ پہلے دس ممالک میں آتا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں میں گلیشیئر پگھلنے، خشک سالی اور سیلاب کے واقعات شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو کلائمیٹ گورننس فریم ورک کا جائزہ لینا چاہیے، موسمیاتی تبدیلی ایکٹ 2017 کے تحت انٹرنیشنل کلائمیٹ فنڈنگ کو محفوظ بنایا جائے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے رپورٹ میں کلائمیٹ گورننس کو مضبوط بنانے کے لیے سفارشات دیتے ہوئے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ایکٹ کے تحت موسمیاتی تبدیلیوں کے اداروں کو فعال، بااختیار بنایا جائے، موسمیاتی تبدیلی کے بحران کے تناسب سے موسمیاتی بجٹ میں رقم مختص کرنی چاہیے، موسمیاتی فنانسنگ پر اوپن ڈیٹا بیس کا قیام عمل میں لایا جائے، جب کہ کلائمیٹ گورننس کی سالمیت کو بڑھانے کے لیے عالمی طریقوں کا استعمال کیا جائے۔
ہیٹ ویوز تب آتی ہیں جب درجہ حرارت معمول سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہو اور 4 سے 5 دن تک برقرار رہے ایک دن درجہ حرارت زیادہ ہونے سے ہیٹ ویو نہیں آتی۔ پاکستان میں 5 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں جب کہ ایک سر سبز ملک کے لیے 25 سے 35 فیصد تک رقبے پر جنگلات ہیں۔
اس لیے پودے زیادہ سے زیادہ لگا کر جنگلات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے ڈیم بنائے تاکہ بارش اور سیلاب کی صورت میں پانی ضایع ہونے سے بچا کر ذخیرہ کیا جاسکے۔ پاکستان میں تیل اورکوئلہ سے توانائی پیدا کی جاتی ہے جس سے گرین ہاؤس گیسز بھی پیدا ہوتی ہیں جو ماحولیات کے لیے انتہائی خطرناک ہیں، اس لیے عوام کو پیدل اور سائیکل پر سفرکرنے کی عادت بھی بڑھانی ہوگی کیونکہ اس سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ ماحولیات کا تحفظ بھی ہوگا۔
حکومت پاکستان کی عوام الناس میں آگاہی اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔ سبز انقلاب کے لیے کاغذ اور بجلی کے کم سے کم استعمال کا شعور پھیلایا جائے۔ دوسری جانب انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے تعاون سے موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت کا پروگرام (CACRA)کامیابی سے جاری ہے اور مختلف اداروں کے ساتھ اشتراک سے مثبت اور نتیجہ خیز سرگرمیاں جاری ہیں۔ شجر کاری اور شجر پروری کو اہمیت دی جاتی ہے۔
تھری آرزReduce,Reuse and Recycle جیسے سلوگن پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے عالمی ایام جیسے ارتھ ڈے، واٹر ڈے، گلوبل کلائمٹ چینج ویک پر مختلف تقریبات کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔ اسکول، کالج اور جامعات کے طلبہ و طالبات کے مابین موضوعاتی مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔
پاکستان کو شدید موسمی واقعات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے، کچھ دنوں میں مون سون سیزن شروع ہوجائے گا، لٰہذا تمام صوبائی حکومتوں اور شہری اداروں کو وقت سے پہلے حفاظتی انتظامات کو آخری شکل دینی چاہیے۔ شدید موسمی واقعات جیسے سیلاب، طوفان اور گرمی کی لہروں سے نمٹنے کے لیے ہنگامی منصوبے اور بنیادی ڈھانچہ تیارکیا جائے۔ قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے شمسی، ہوا اور پن بجلی کی ترقی اور استعمال میں معاونت کی جائے ۔
نقل و حمل سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے پیدل چلنے، سائیکل چلانے اور الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے، ایسے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی جائے جو آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات جیسے کہ سمندر کی سطح میں اضافہ، موسم کے انتہائی واقعات، اور بارش کے نمونوں میں تبدیلی کے لیے لچکدار ہو۔ پانی کے ضیاع کو کم کریں، بہتر توانائی کے آلات استعمال کریں، ذرائع نقل و حمل کو بہتر حالت میں رکھنا، اشیا کو ری سائیکل کرنا۔ یہی وہ اقدامات ہیں جن پر عمل درآمد ضروری ہے تاکہ ہم اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنا سکیں۔