دہشت گردی کے خلاف شروع کی جانے والی امریکی جنگ کا حصہ اور فرنٹ لائن اتحادی بننے کے بعد سے آج تک پاکستان دہشت گردی، شدت پسندی اور انتہا پسندی کے الاؤ میں جھلس رہا ہے۔
ایک وقت تھا کہ کراچی سے لے کر خیبر تک دہشت گردوں نے خون کی ہولی کھیلتے ہوئے خودکش حملوں، بم دھماکوں اور دہشت گردی کی سفاکانہ کارروائیوں میں مساجد سے لے کر مکتب تک، سرکاری املاک سے لے کر گلیوں بازاروں تک اور نامور لوگوں سے لے کر عام آدمی تک سب کو نشانہ بنایا۔ دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے پاک فوج، پولیس، رینجرز اور سیکیورٹی کے دیگر اداروں کے افسران و اہلکاروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ملک میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے میں 100 سے زائد معصوم طلبا کی شہادت کے بعد سیاسی و فوجی قیادت سر جوڑ کر بیٹھی اور ملک سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے ’’ نیشنل سیکیورٹی پلان‘‘ کی منظوری دی گئی جس کے تحت پاک فوج نے پہلے ضرب عضب اور پھر آپریشن ردالفساد کا آغاز کیا۔
آپریشن ردالفساد کے دوران 37 ہزار پولیس افسروں اور 3800 سے زائد اہلکاروں کو ٹریننگ دی گئی۔ دہشت گردوں کے خلاف بڑی تعداد میں کارروائیاں کی گئیں جن میں 350 سے زائد دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ آپریشن ضرب عضب میں محض ایک سال کے عرصے میں 2700 سے زائد دہشت گرد ہلاک اور 300 سے زائد فوجی جوان شہید ہوئے۔ دو دہائیاں گزر گئیں 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر امریکا پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد سے پاکستان اس عذاب میں مبتلا ہے۔ دو عشروں کے دوران دہشت گردی کے مختلف واقعات میں 80 ہزار سے زائد لوگ شہید ہو چکے ہیں۔
ایک ارب ڈالر سے زائد معیشت کو نقصان پہنچ چکاہے۔ اس کے باوجود آج بھی دہشت گردی آکاس بیل کی طرح جسد قومی کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے صوبے آج بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں جہاں وہ وقفے وقفے سے اپنی مذموم کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اوپر تلے دہشت گردی کے دو واقعات کرم اور لکی مروت میں 12 جوان شہید ہوگئے اور امن و امان پر پھر سوالیہ نشان لگ گیا۔ لگا تار ہونے والے دہشت گردی کے ان واقعات نے ملک کی فوجی و سیاسی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنے اور یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ دہشت گردی کے جڑ سے خاتمے اور امن و امان کی مکمل بحالی کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر نئے زاویوں سے سوچ و بچار اور حکمت عملی کو نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
قومی قیادت کو اس امر کا بخوبی اندازہ ہے کہ امن و امان کے قیام کے بغیر ملک میں سیاسی و معاشی استحکام نہیں آ سکتا اور نہ ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ملک سے انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جاری قومی مہم کو ازسرنو متحرک مہمیز کرنے کے لیے آپریشن ’’عزم استحکام‘‘ شروع کرنے کی منظوری دی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بجا طور پر کہا کہ دہشت گردی میں مبتلا غیر مستحکم ریاست میں مستحکم معیشت کا تصور نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کیا جاسکتا ہے۔
قبل ازیں سی پیک پر تیسرے پاک چین مشاورتی اجلاس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایک موقف کے ساتھ ایک پیج پر نظر آئیں جو یقینا حوصلہ افزا بات ہے۔ پاکستان کے دورے پر آئے چینی وزیر لیوجان چاؤ نے مذکورہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا کہ ترقی کے لیے اندرونی استحکام از بس ضروری ہے۔ سرمایہ کاری کے لیے سیکیورٹی صورت حال بہتر بنانا ہوگی اور تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کو مل کر چلانا ہوگا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا ’’عزم استحکام‘‘ کی کامیابی اور قومی ترقی کے لیے طاقت کے تمام اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت اجاگر کرنا اور چینی وزیر کا تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کو مل کر چلنے کا مشورہ دینا ایک خوش آیند بات ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے نظریاتی و سیاسی اختلافات رکھنے کے باعث مفادات کے ٹکراؤ کی سیاست کو ترجیح دے رہی ہیں تاکہ عوام میں ان کی پذیرائی اور مقبولیت کا بھرم رہے جس کی تازہ مثال پی پی پی اور (ن) لیگ کے بجٹ 2024 پر ابھر کر سامنے آنے والے اختلافات اور تحفظات ہیں۔
حکومت میں شامل اور اتحادی ہونے کے باوجود اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر ایک دوسرے کے مقابلے میں بھی کھڑی ہیں۔ آپریشن ’’ عزم استحکام‘‘ کی کامیابی اور معاشی و سیاسی استحکام کے لیے لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں آئین کے تحت اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق اپنا کردار ادا کریں، حکومت کو چاہیے کہ وہ آپریشن ’’ عزم استحکام‘‘ پر اپوزیشن کو اعتماد میں لے۔اپوزیشن کا بھی فرض ہے کہ سیاسی اور پارٹی کے مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح نہ دے اور ملکی استحکام کے لیے حکومت سے ہر ممکن تعاون کرے۔