ملک کو اس وقت سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے استحکام، جس کیلئے ریاست نے ’’عزم استحکام‘‘ کے نام سے ایک لائحہ عمل تشکیل دیا ہے، پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کیلئے ’’ عزم استحکام‘‘ کا اعلان تو کر دیا گیا مگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس کی بھرپور مخالفت کی جا رہی ہے۔
ملک میں دہشت گردی کے واقعات اور مستقبل میں لاحق خطرات سے نمٹنے کیلئے گزشتہ ہفتے نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی نے ’’عزم استحکام‘‘کی منظوری دی، اس فورم کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں موجود چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے نمائندوں نے آپریشن عزم استحکام شروع کرنے پر اتفاق کیا مگر چند گھنٹے گزرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے اس کی مخالفت میں بیانات داغ دیے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف)، اے این پی اور جماعت اسلامی نے بھی اس کی مخالفت کی ہے، پاکستان تحریک انصاف نے مؤقف اختیار کیا کہ نئے آپریشن سے متعلق پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے، اس معاملے کو پارلیمان میں زیر بحث لایا جائے، اپیکس کمیٹی پارلیمان سے بالاتر نہیں ، پہلے کی طرح عسکری قیادت پارلیمان کو بریفنگ دے، حکومت نے اس کے جواب میں کہا کہ تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے تو اپیکس کمیٹی اجلاس میں آپریشن کی تائید کی، پی ٹی آئی اس کی مخالفت کیسے کر رہی ہے؟
تاہم بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے دعویٰ کیا کہ اپیکس کمیٹی اجلاس میں تو آپریشن کی بات ہی نہیں ہوئی صرف’’ عزم استحکام ‘‘کی بات ہوئی کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چاہئے، وفاقی حکومت نے تحریک انصاف کے اعتراض کے جواب میں پہلے کہا کہ اسے کابینہ اور پارلیمان میں لے کر جائیں گے اس کے چند گھنٹوں بعد وضاحتی بیان جاری کر دیا کہ ملک میں کوئی بڑ ا آپریشن نہیں ہو رہا ، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے انٹیلی جنس بنیاد پر جاری کارروائیوں کو مزید متحرک کیا جائے گا۔
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ عزم استحکام کو غلط سمجھا جا رہا ہے اور اس کا موازنہ’’ راہِ نجات‘‘ اور ’’ضرب ِعزب‘‘ جیسے آپریشنز سے کیا جا رہا ہے ، یہ بحث ختم ہونی چاہیے، وزیر اعظم آفس تو بحث کو ختم کرنا چاہتا ہے مگر یہ بحث ہے کہ بڑھتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کا شکوہ ہے کہ اس فیصلے سے قبل انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ’’ عزم استحکام‘‘ ہے کیا؟ کیا یہ آپریشن ہے یا کوئی حکمت عملی ؟
عزم استحکام بنیادی طور پر کوئی نیا آپریشن نہیں بلکہ ملک بھر میں پہلے سے جاری سکیورٹی فورسز کے آپریشنز کا تسلسل ہے، مگر اس میں ہول آف دی نیشن اپروچ کو شامل کیا گیا ہے یعنی ان جاری آپریشنز کو سیاسی قیادت کی سپورٹ دینا اور پوری قوم کو اس کا حصہ بنانا ہے، کیونکہ جہاں سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے نبرد آزما ہیں وہیں اس جنگ میں کامیابی کیلئے پوری قوم یکجا ہو اور اپنی فورسز کے پیچھے کھڑی ہو۔
اس حکمت عملی میں دہشت گردوں کی سرحد پار آماجگاہوں کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے، عز م استحکام میں دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے زمینی آپریشن کے ساتھ ساتھ سکیورٹی فورسز کی استعداد کار بڑھانا بھی شامل ہے تاکہ سکیورٹی فورسز جدید دور کے چیلنجز سے نمٹ سکیں، راہ راست ، راہ نجات یا ضرب ِعزب کی طرح یہ آپریشن کسی مخصوص صوبے یا علاقے تک نہیں بلکہ ملک بھر میں پہلے سے جاری آپریشنز کا حصہ ہے۔
اس وقت ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز جاری ہیں جن میں سب سے زیادہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہو رہے ہیں، سکیورٹی ذرائع کے مطابق دونوں صوبوں میں خفیہ معلومات کی بنیاد پر روزانہ کی بنیاد پر ایک سو سے زائد آپریشن جاری ہیں، نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن کی کامیابی کیلئے ایک مؤثر قانونی سپورٹ کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا تاکہ ملک کا عدالتی نظام دہشت گردوں کی سرکوبی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکے۔
عزم استحکام کے معاملے پر وفاقی حکومت آنے والے چند دنوں میں سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے گی، اس کیلئے آل پارٹیز کانفرنس اور پارلیمنٹ کا ان کیمرہ اجلاس بلانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے، مگر کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت اس معاملے کو بہتر طریقے سے مینج نہیں کر سکی، اگر سیاسی قیادت کو شروع میں اعتماد میں لیا جاتا تو صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف ’’عزم استحکام‘‘ کو بانی پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت سے مشروط کر رہی ہے، پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان نے بیان دیا کہ خیبر پختونخوا میں کسی بھی آپریشن کیلئے بانی پی ٹی آئی کے پاس جانا ہوگا، اگرچہ حکومت نے بات چیت کا ماحول بنانے کی کوشش شروع کر دی ہے مگر کئی مسائل راستے کی رکاوٹ ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک مرتبہ پھر بات چیت کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کو جیل میں مشکلات ہیں تو آئیں بیٹھ کر معاملات طے کریں۔
قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں، ملک کی ترقی اور اسے آگے لے جانے کیلئے مل کر بیٹھیں اور پاکستان کے مفاد میں معاملات طے کریں مگر پاکستان تحریک انصاف نے مذاکرات کی پیشکش کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی سے مشروط کر دیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے وزیر اعظم شہباز شریف کی پیشکش کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بات تب ہوگی جب بانی پی ٹی آئی باہر آئیں گے، صرف یہی نہیں بلکہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کارکن بھی باہر آئیں گے، دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی آنے والے دنوں میں جیل سے باہر آسکتے ہیں مگر حکومت کی کوشش ہوگی کہ ان کو جتنی دیر جیل میں رکھا جا سکتا ہے رکھا جائے۔
اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات اپنی جگہ مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے سیاسی اتفاقِ رائے اور قومی یگانگت کی اشد ضرورت ہے، سکیورٹی فورسز روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہیں اور کرتی رہیں گی مگر اس عفریت کو شکست دینے کیلئے سیاسی نظریات اور مفادات سے بالاتر ہو کر ایک قوم بن کر اکٹھا ہونے کی اشد ضرورت ہے، یہی عزم استحکام ہے۔