سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی معافی قبول کرلی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین عدالت کیس میں آزاد سینیٹر فیصل واوڈا اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان کے رکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال کی معافی قبول کرلی۔

جمعہ کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے فیصل واوڈا کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے دونوں سیاسی رہنماؤں کے خلاف توہین جاری کیا گیا توہین عدالت کا نوٹس بھی واپس لے لیا ہے۔

سپریم کورٹ نے کیس سے متعلق ٹی وی چینلز کو دو ہفتے میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی جبکہ آئندہ سماعت کی تاریخ کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عقیل عباسی اور جسٹس نعیم اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

آج کی سماعت کا احوال

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ جو کچھ پریس کانفرنس میں کہا گیا کیا وہ جج کو اسکینڈلائز کرنے جیسا ہےیا نہیں؟، کیا وہ گفتگو جج اور عدالت کے خلاف نفرت انگیزی اور توہین میں نہیں آتی؟

چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی کو ہدایت کی کہ بطور آفیسر آف کورٹ اس عدالت کو جواب دیں۔

فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ فیصل واوڈا کی گفتگو بادی النظر میں توہین عدالت ہے جبکہ مصطفیٰ کمال کی گفتگو میری رائے میں توہین عدالت نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے بطور ٹی وی چینلز ان کی گفتگو پھیلائی، آپ ان پر تہمت اب لگا رہے ہیں توہین کی خود کہتے ہیں کچھ نہیں کیا، باہر کے ممالک میں تو پریس کانفرنس لائیو نہیں دکھائی جاتی، وہاں پریس کانفرنس سن لی جاتی ہے پھر کچھ چیزیں کاٹ لیتے ہیں، اب آپ امریکا کی مثال نہیں دیں گے ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے خود مان لیا توہین ہوئی ہے پھر آپ کو نوٹس کر دیتے ہیں، یہ تو اب آپ کے اعتراف پر توہین عدالت کی کارروائی ہو گی جس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ مجھے آپ پر پورا اعتبار ہے آپ جو بھی فیصلہ کریں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمیں سرٹیفکیٹ نہ دیں ، کیا یہ آئینی دلیل ہے کہ آپ پر پورا اعتبار ہے؟۔

فیصل صدیقی کا کہنا ہے کہ عدالت چاہتی ہے چینلز کے دستخط سے جواب دیں تو دے دوں گا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمارے ساتھ گیمز کھیلیں گے تو آپ کو موقع نہیں دیں گے، ہم بھی پھر آپ کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے، آپ کے کلائنٹ نے نہیں یہ آپ نے جواب جمع کرایا ہے، ہم آپ کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے 26 کلائنٹس کی جانب سے ایک جیسا جواب جمع کروادیا ہے جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ اس لیے کہ سب کا دفاع ایک جیسا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ک ہدفاع؟ مطلب آپ اس کیس کو لڑنا چاہتے ہیں، ہم نے جان کر ہی شوکاز کی جگہ سادہ نوٹس بھیجا تھا، ہم ٹی وی چینلز سے جواب کی توقع رکھتے تھے۔

چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ فیصل صدیقی اس جواب پر آپ کے دستخط ہیں، ہم آپ کو بھی توہین عدالت کا نوٹس دے سکتے ہیں جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ میں اس جواب کی مکمل ذمہ داری لیتا ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے خود کہا کم از کم ایک پریس کانفرنس تو توہین آمیز تھی جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ میں نے بادی النظر میں توہین کہا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ایسا کچھ نہیں کہا ایسا مت کریں جس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ میں نے کہا تھا بادی النظر میں توہین ہے۔

فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی معافی

دوران سماعت عدالت نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو روسٹرم پر بلایا اور ان کی معافی قبول کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس قوم کو پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں اداروں کی ضرورت ہے، ہم آپ کی بطور ادارہ عزت کرتے ہیں، امید ہے آپ اتنی نہیں تو تھوڑی عزت ہماری بھی کریں گے، آپ کی معافی آگئی معاملہ آگے نہیں بڑھائیں گے۔

فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ ہم اس ادارے کی عزت و احترام کرتے ہیں، ایک کرب سے گزر رہا ہوں کہ ایک جج نے مجھے پراکسی کہا جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ آپ یہ باتیں نہ کرتے تو معاملہ وہاں نہ جاتا۔

حکمنامہ

بعدازاں، عدالت عظمیٰ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوایا جس میں کہا گیا کہ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو جاری شوکاز واپس لیا جاتا ہے، توقع ہےدونوں رہنما اپنے جمع کرائے گئے جواب پر قائم رہیں گے، اگر دوبارہ کچھ ایسا ہوا تو صرف معافی قابل قبول نہیں ہو گی۔

حکمنامہ کے مطابق پریس کانفرنس دکھانے والے  ٹی وی چینلز کو بھی نوٹس جاری کیے گئے تھے، 26 ٹی وی چینلز کی جانب سے فیصل صدیقی پیش ہوئے، ٹی وی چینلز کی جانب سے ابتدائی جواب جمع کرایا گیا، اس جواب پر ٹی وی چینلز کی جانب سے کسی کا دستخط نہیں، ٹی وی چینلز کے جواب پر فیصل صدیقی کے دستخط ہیں، عدالت اس جواب کو ٹی وی چینلز کا جواب تصور نہیں کر سکتی۔

ٹی وی چینلز کو توہین عدالت کے نوٹس جاری

فیصل صدیقی نے کہا پریس کانفرنس لائیو دکھانا چینلز کی آئینی ڈیوٹی ہے، اس دستاویزکو جواب مانا جائے تو چینلز نے توہین آمیز براڈ کاسٹ کو جواز دینے کی کوشش کی، بادی النظر میں ٹی وی چینلز کی وضاحت معقول نہیں، ٹی وی چینلز کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کیے جاتے ہیں۔