آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا ایک اور ایڈیشن سنسنی خیز اور دلچسپ مقابلوں کے بعد اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے، جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے فاتح کا فیصلہ ہو چکا ہو گا،اس بار مختصر فارمیٹ کا عالمی میلہ پہلی مرتبہ ویسٹ انڈیز کے ساتھ امریکا میں بھی سجایا گیا، امریکا میں خاص طور پر کنڈیشنز اور موسم کی وجہ سے آئی سی سی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
نیویارک کی ڈراپ ان پچز کی وجہ سے مزہ کرکرا رہا، وہاں پر بڑے اسکور نہیں بن سکے، ہارڈ ہٹنگ کا مظاہرہ نہ ہوسکا، ٹورنامنٹ کے شیڈول پر خاص طور پر کافی تنقید کی گئی اور اسے سابق انگلش کرکٹر کی طرف متعصبانہ بھی قرار دیا گیا، اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس میں خاص طور پر بھارتی ٹیم کو ایڈوانٹیج دیا گیا، ٹورنامنٹ شروع ہونے سے قبل ہی اسے علم تھا کہ سیمی فائنل کس دن اور کس وقت کھیلا جائے گا۔
بھارت کو فائدہ دینے کی بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے کیونکہ پہلا پریکٹس میچ بنگلہ دیش کے خلاف یکم جون کونیویارک میں تھا جہاں پر اسے پاکستان سے ہائی وولٹیج میچ میں مقابلہ کرنا تھا، آئر لینڈ سے میچ بھی اس نے اسی وینیو پر کھیلا، اس پہلے راؤنڈ میں آخری میچ فلوریڈا میں تھا جو بارش کی نذر ہوگیا۔
پاکستان نے اپنا پہلا میچ ڈیلس میں امریکا کے خلاف کھیلا جس میں سپر اوور میں شکست ہوئی، آخری اوور میں حارث رؤف نے حریف ٹیم کو اسکور ٹائی کرنے کا موقع فراہم کیا ، سپر اوور میں محمد عامر کی 3 وائیڈ بالز ناکامی کی بڑی وجہ ثابت ہوئیں۔ بھارت کے خلاف میچ میں پاکستان کے پاس بہترین موقع تھا کہ وہ امریکا جیسی نوآموز ٹیم کے خلاف شکست کا داغ دھو دے، بولرز نے کافی محنت بھی کی ،وہ بہترین بیٹرز پر مشتمل بھارتی ٹیم کو 119 رنز پر ڈھیر کرنے میں کامیاب بھی ہوئے، اس کے بعد پاکستانی بیٹرز 120 رنز کا آسان ہدف حاصل نہیں کر پائے، کنڈیشنز مشکل ضرور تھیں لیکن اتنی بھی نہیں تھی کہ فی گیند فی رنز کا ہدف حاصل نہ کیا جاسکتا، بہرحال بھارت پہلے چونکہ وہاں پر کھیل چکا تھا اس لیے اسے کنڈیشنز کا زیادہ بہتر اندازہ تھا، اس شکست کے بعد پاکستان ٹیم اگر مگر کے چکر میں الجھ گئی اور آخر کار امریکا اورآئرلینڈ کا مقابلہ بارش کی نذر ہونے کی وجہ سے ٹیم کی سپر ایٹ راؤنڈ میں رسائی کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں، کینیڈا اور آئرلینڈکے خلاف رسمی میچ کھیلنے کے بعد پاکستان ٹیم فارغ ہو گئی۔
یہ کپتان بابرعظم کی قیادت میں گرین شرٹس کا تیسرا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تھا، 2021 میں پاکستان نے سیمی فائنل کھیلا، جس میں اسے آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست ہوئی، اس کے بعد ٹیم نے 2022 میں آسٹریلیا میں کھیلے گئے ایونٹ میں انگلینڈ کے خلاف فائنل کھیلا جس میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
گروپ اے سے امریکا نے اپنے پہلے ایونٹ میں ہی دوسرے راؤنڈ میں رسائی حاصل کی، پاکستان کے خلاف ملنے والی پہلی فتح کی بدولت اس کو یہ اعزا حاصل ہوا، سپر 8 راؤنڈ میں ٹیم کوئی خاطرخواہ کارکردگی پیش نہیں کر سکی جس کی وجہ سے سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہونا پڑا۔ افغانستان نے اس بار قدر بہتر پرفارمنس کا مظاہرہ کیا، پہلے راؤنڈ میں نیوزی لینڈ جیسی ٹیم کو شکست دی جس کی وجہ سے کیویز کا بھی سپر 8 راؤنڈ میں رسائی کا خواب ادھورا رہ گیا، سپر 8 راؤنڈ میں افغانستان نے آسٹریلیا کے خلاف شاندار کامیابی حاصل کی، جس کی بدولت اس کے سیمی فائنل کھیلنے کے امکانات روشن ہوئے۔
بنگلہ دیش کے خلاف کامیابی نے فائنل 4 میں رسائی پر مہر ثبت کر دی، آسٹریلیا کو بھی سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہونا پڑا۔ اس ٹورنامنٹ میں خاص طور پر جنوبی افریقہ پہلے میچ سے ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا رہا، پہلے راؤنڈ اور پھر اس کے بعد سپر 8 راؤنڈ میں بھی ناقابل شکست رہا، سیمی فائنل میں ٹیم نے افغانستان کے خلاف بڑی آسانی سے کامیابی حاصل کی اور پہلی بار کسی ورلڈ کپ کے فائنل میں جگہ بنانے کا اعزاز حاصل کیا، پروٹیز 1992 سے آئی سی سی کے متعدد ورلڈکپ ٹورنامنٹس کے سیمی فائنل میں جگہ بنا چکے تھے مگر بدقسمتی سے وہ اس سے قبل ایک بار بھی فائنل نہیں کھیل سکے، ٹائٹل کے قریب خالی ہاتھ رہنے کی وجہ سے انہیں چوکرز کا خطاب بھی ماضی میں دیا گیا تھا۔
دوسری جانب بھارت کا سفر بھی ناقابل شکست رہا اگرچہ پہلے راؤنڈ میں اس کا ایک میچ بارش کی نذر ہوا تاہم سپر 8 میں ٹیم نے افغانستان، بنگلہ دیش اور پھر آسٹریلیا کو زیر کر کے ناقابل شکست رہتے ہوئے سیمی فائنل میں جگہ بنائی جہاں پر انگلینڈ کو بھی بڑی آسانی سے مات دے کر فیصلہ کن میچ کھیلا، آئی سی سی کی جانب سے شیڈولنگ اور دیگر فوائد حاصل ہونے کے الزامات کے باوجود بھارتی ٹیم کی پرفارمنس میدان میں بھی کافی بہتر رہی، خاص طور پر دباؤ کے لمحات میں کھلاڑیوں نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور کامیابی سے میچ فنش کیے، ویراٹ کوہلی اس بار کافی بجھے بجھے سے دکھائی دیے، ان سے بڑی اننگز کی توقع کی جا رہی تھی مگر سیمی فائنل تک ان کی کارکردگی کافی مایوس کن رہی ،البتہ کپتان روہت شرما نے صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور ایونٹ کے ٹاپ اسکوررز میں شامل رہے، بھارت کی کامیابیوں میں روہت شرما کی بیٹنگ کا بھی اہم کردار رہا، ممکنہ طور پر یہ روہت شرما اور ویراٹ کوہلی دونوں کا آخری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ثابت ہوسکتا ہے۔
ویسٹ انڈیز کے تمام میچز اس کے اپنے ہوم گراؤنڈز پر تھے ،ابتدائی راؤنڈ میں ٹیم نے اس کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا تاہم سپر 8 مرحلے میں پرفارمنس کا معیار برقرار نہیں رکھ پائی، اس طرح ایک بار پھر مختصر فارمیٹ کے میگا ایونٹ کا میزبان ٹائٹل کی دوڑ سے پہلے ہی باہر ہو گیا، اب تک صرف سری لنکا ہی وہ واحد ملک ہے جس نے اپنی میزبانی میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جگہ بنائی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم اپنے مایوس کن سفر کے بعد گروپس کی شکل میں ملک واپس لوٹی، اب اس کی اگلی ازمائش بنگلہ دیش کے خلاف 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز ہے، جس میں کئی سینئر کھلاڑیوں کوآرام دیے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، اہم بات یہ ہے کہ پہلی بار سیمی فائنل میں رسائی حاصل کرنے والی افغانستان ٹیم نے بھی شکست کے بعد اپنی قوم سے معذرت کی تاہم پاکستان کی جانب سے نہ تو کپتان، نہ ہی ٹیم مینجمنٹ اور نہ ہی بورڈ کی طرف سے ناکام مہم پر کسی قسم کے افسوس کا اظہار یا معافی مانگی گئی۔