اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ شجاعیہ میں اسرائیلی فوج کے حملوں کے بعد کم از کم ساٹھ ہزار فلسطینی بے گھر ہوگئے ہیں۔ غزہ میں حالات ناقابل برداشت ہیں، قحط شدت اختیار کر رہا ہے، دوسری جانب حماس کے رہنما کا کہنا ہے کہ اسرائیل بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، ستر فی صد اہل غزہ بھوک کا شکار ہیں، ساڑھے تین لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار اور نصف آبادی کے پاس صرف ایک دن کی خوراک باقی رہ گئی ہے۔
غزہ کی انتہائی سنگین صورت حال پر عالمی طاقتیں صرف تشویش کے اظہار سے زیادہ کچھ نہیں کر پا رہیں اور اقوامِ متحدہ جس کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ بین الاقوامی امن و سلامتی کو یقینی بنائے وہ بھی بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے والی صیہونی حکومت کی حمایت اور غزہ کے عوام کے خلاف بھوک کا ہتھیار استعمال کرنے کی وجہ سے امریکا پر رائے عامہ کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔
کہا جاتا تھا کہ امریکا کی دونوں سیاسی جماعتیں اگر کسی بات پر ہم خیال ہیں تو وہ اسرائیل کی حمایت ہے۔ صدر جوبائیڈن نے تو یہاں تک کہا تھا کہ میں بھی صہیونی ہوں۔ دوسری جانب اہم نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے غزہ پٹی میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور قحط پیدا کرنے کی کوششوں کی وجہ سے صیہونی حکومت کی اس نسل کشی کی پالیسی کی مذمت کی ہے، جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کرنا اور انھیں اس علاقے سے نکلنے پر مجبور کرنا ہے۔ بلاشبہ اس بات کے معتبر شواہد موجود ہیں کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں قحط کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اب تک تقریباً 38000 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں ہزاروں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ ایک عظیم اِنسانی المیہ وقوع پذیر ہے۔ 80 فیصد آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔ لوگ محفوظ پناہ گاہوں سے بھی باہر بھاگ رہے ہیں کہ محفوظ پناہ گاہیں بھی راکٹوں اور بمبوں کے نشانے پر ہیں۔ امداد کرنے والے ادارے بے بس ہیں کہ اداروں کو امدادی کام کرنے کے لیے بے پناہ رکاوٹیں ہیں۔
اِنسانیت کی تذلیل کا یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا کی بعض تصاویر میں اْنہیں فوجی ٹرکوں میں جانوروں کی طرح لے جایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی امدادی ٹیم کے سربراہ کہہ چکے ہیں کہ غزہ میں اِنسانی بنیاد پر ہونے والے کسی آپریشن کا کوئی وجود نہیں اور لوگ یکسر بے یار و مددگار ہیں اور اِس مایوس کن صورتِ حال میں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی ملاحظہ ہو کہ اْنھوں نے بیروت اور جنوبی لبنان کو غزہ میں تبدیل کرنے کی دھمکی دی ہے اور دْنیا نے اْن کی خواہش پر سرِ تسلیم خم کر دیا ہے۔
دْنیا میں مشرق وسطی بالخصوص فلسطین پر نظر رکھنے والے دانشوروں اور تجزیہ کاروں کے خیال میں دْنیا کے سیاسی رہنما اِس بات کی نشاندہی کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں کہ غزہ میں زمینی حقائق کیا ہیں۔ 8 ملین لوگوں کی زبردستی منتقلی ہوچکی ہے۔ 80 فیصد آبادی مسلسل بے رحم بمباری کی زد میں ہے اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ نہتے لوگوں کی بھوک، بے بسی اور نسل کشی کو جنگ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
فلسطین میں جاری جنگ کا ایک تاریخی پس منظر ہے جوکہ ایک بہت تلخ حقیقت پر مبنی ہے اور وہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ فلسطین اور عرب دْنیا کے لیے یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کی صبح حماس کے اسرائیل پر راکٹ حملوں سے شروع نہیں ہوئی بلکہ یہ جنگ اْن کے لیے 1948 سے جاری ہے جب اسرائیلی ملیشیا نے فلسطینیوں کو اْن کے گھروں سے بے دخل کیا اور ہزار افراد کو شہید کیا جسے نکبہ یا تباہی کہا جاتا ہے۔
یہ 1967 میں عرب اسرائیل کی چھ روزہ جنگ میں بھی جاری رہی جس میں اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کرنا شروع کیا اور تنازع کو مزید پیچیدہ کردیا اور یوں دہائیوں سے فلسطینی زخمی ہیں اور اْن کی زمین آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ اِن سات دہائیوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ فلسطینیوں نے یا اْن کی پشت پر کھڑے عربوں نے کبھی سکھ کا سانس لیا ہو۔ اپنی ہی زمین سے بے دخل ہو جانے والے لوگ سات دہائیوں سے اِنصاف کے لیے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ دْنیا میں عمومی طور پر اور عرب دْنیا میں خصوصی طور پر فلسطین کے معاملے پر اِنسانی حقوق کی سیاست کی جاتی رہی، اگرآپ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں کی عرب سیاست کا عمیق جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ عرب قوم پرستی کے عروج کے دور میں فلسطین عربوں کی سیاست کا مرکز رہا ہے۔
فلسطین کے تناظر میں بین الاقوامی امن و انصاف کے لیے بڑی طاقتوں کے کردار کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل کی مجوزہ قرارداد کو امریکا نے ویٹو کردیا تھا۔ اِس وقت دْنیا کے اکثر ممالک اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی رائے کی تائید کرتے ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کی جنگ اِس نہج پر ہے کہ اِس سے بین الاقوامی امن کو حقیقی خطرہ ہے۔ اِنسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے مطالبے کی حمایت میں ناکامی فلسطینیوں کے مزید قتل، بین الاقوامی قانون کی مزید خلاف ورزیوں، جنگی جرائم کے مزید ارتکاب کی توثیق ہے اور اسرائیل کے لیے کی جانے والی سہولت کاری سے غزہ میں ایک خوفناک صورت حال پیدا ہورہی ہے۔
اس صورتِ حال میں دو اہم سوال اْٹھتے ہیں۔ پہلا سوال کہ کیا اقوام متحدہ جیسا ادارہ اپنے امن و سلامتی جیسے مقاصد حاصل کرنے میں ناکا م ہوچکا ہے؟ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوامِ عالم غزہ میں رْونما ہونے والے انسانی المیے کے باوجودکوئی حل نکالنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں اور اِس ناکامی کے بعد مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کی فوجی کارروائی کی وجہ سے انسانی مصائب بڑھیں گے، بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں ہوں گی اور لاکھوں لوگوں کو جبری بے گھر ہونا پڑے گا۔ ایسی صورتِ حال میں یوں لگ رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے ہی ایک جارح اور غاصب کی سہولت کاری ہورہی ہے اگر اقوامِ متحدہ میں بڑی طاقتوں کے مفادات کو بھلے وہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہو ادارہ جاتی سہولت کاری ہوگی تو اقوامِ متحدہ کے وجود کی دلیل پر بھی سوال اْٹھیں گے۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکی مفادات اور اسرائیلی بالادستی بین الاقوامی امن اور انصاف سے زیادہ اہم ہیں؟ کیا سیاسی مقاصد کی تکمیل لاکھوں انسانی جانوں سے زیادہ ضروری ہے؟ اگر بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کے فلسفے کی رو سے دیکھیں گے تو بڑی طاقتوں کے مفادات چھوٹے اور کمزور ملکوں سے زیادہ اہم ہوتے ہیں اور بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کا کوئی ضابطہ اخلاق بھی نہیں ہوتا۔ غزہ عالمی اخلاقیات کا امتحان ہے جس کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر مفادات سے ٹکراتے ہوں تو اِنسانی حقوق بھی اِنسانی حقوق نہیں ہوتے یا کم ازکم کمزوروں کے اِنسانی حقوق نہیں ہوتے۔ میری رائے میں اگر بین الاقوامی امن اور انصاف اقوامِ متحدہ اور بڑی طاقتوں کی ترجیحات میں ہیں تو اْس کے لیے بڑی طاقتوں کو اپنے ملکی مفاد سے بالا سوچنا پڑے گا اور اقوام ِ متحدہ کو قوموں اور ملکوں کے مابین انصاف پر مبنی فیصلے کرنا پڑیں گے، بصورتِ دیگر یہ آگ اور بارود کا خونی کھیل جاری رہے گا۔
گزشتہ برس سات اکتوبر سے پہلے کی دنیا کا مشاہدہ کیا جائے تو بہت سی ایسی نشانیاں اور مشاہدات سامنے آتے ہیں جس میں واضح ہوتا ہے کہ مغربی استعماری حکومتیں ایشیائی ممالک بالخصوص جنوبی ایشیاء اور مغربی ایشیاء میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھانے کے لیے یہاں معاشی، سیاسی اور فوجی کنٹرول حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھیں۔ اسی دوران 7 اکتوبر کو فلسطینیوں نے اپنی آزادی کے لیے ایک ایسا طوفان شروع کیا جسے طوفان الاقصیٰ کہا جاتا ہے کہ جس نے ایک طرف اسرائیل کے مظالم کو عالمی سطح پر آشکار کیا تو دوسری جانب پوری مغربی دنیا کی حکومتوں کے نئے منصوبے اور نقشوں کو بھی طشت ازبام کر دیا۔
یہی وجہ تھی کہ سات اکتوبر کے بعد امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتیں کھلم کھلا غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کی پشت پناہی کے لیے سرگرم ہو گئیں اور تاحال غاصب اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں تاکہ ان کے اپنے منصوبہ کو تحفظ حاصل ہو سکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ نے امریکا اور مغربی حکومتوں کے ان تمام ناپاک عزائم اور منصوبوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے جو ایشیائی ممالک بالخصوص ایشیاء میں مسلمان ممالک کے خلاف تیار کیے گئے تھے۔ فلسطینیوں نے عالمی سیاسی منظر نامے پر ایک نیا نقش چھوڑ دیا ہے جسے آج تقریبا نو ماہ گزر جانے کے باوجود مغربی دنیا کی حکومتیں مٹانے سے قاصر ہیں۔
اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والوں میں مسلمان، عیسائی اور یہودی سب شامل ہو رہے ہیں، یہاں مذہب کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ ناحق قتل ہونے والے بچوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی آستین کا لہو دن رات پوری دنیا پر آشکار کر رہا ہے کہ ان معصوم ننھے منے بچوں کا قاتل وہی ہے۔ اس وقت عالمی برادری کے ساتھ ساتھ نسل کشی کرنے والی اسرائیلی حکومت کے اتحادیوں اور شراکت داروں کا فرض ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت پر مظالم کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالیں، تاکہ غزہ کے عوام کو مشکلات سے نجات مل سکے اور وہ موجودہ تباہ کن صورتحال سے باہر نکل سکیں۔