وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نئے ٹیکسز کی وجہ سے لوگ دباؤ محسوس کر رہے ہیں، ایف بی آر نے 9.3 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولیاں کر لیں، جن میں گروتھ تیس فیصد ہے۔ پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کل سے نہیں بڑھا رہے، 70روپے پی ڈی ایل کا فوری اطلاق نہیں ہورہا۔ نان فائلر کی اختراع سمجھ نہیں آتی، اسے ختم کریں گے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے عوام کو نئے مالی سال کے پہلے وفاقی بجٹ کی پہلی سلامی دیتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 9.56 فی لیٹر تک اضافہ کردیا، اسی طرح ہائی اسپیڈ ڈیزل فی لیٹر 9 روپے 56 پیسے مہنگا کیا گیا ہے۔
یہ بات درست سہی کہ کسی بھی حکومت کے پاس جادو کا چراغ نہیں ہوتا کہ وہ اسے رگڑ کر معیشت کی گاڑی کو دوبارہ پٹری پر ڈال دے، اس کے لیے مسلسل کاوش کرنا پڑتی ہے۔ قومی معیشت کا رخ برسوں کی محنت اور جدوجہد کے بعد تبدیل ہوتا ہے۔ ایک طرف وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آ رہا ہے۔
دوسری طرف عوام بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئے ہیں۔ خود وزیر اعظم شہباز شریف نے اعتراف کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بجٹ بنانا مشکل کا کام ہے، ایک طرف ان کا دباؤ اور دوسری طرف عوامی توقعات کو بھی مد نظر رکھنا پڑتا ہے، موجودہ حکومت کی یہ ساری مجبوریاں قابل فہم ہیں۔ اس کے باوجود، بے بس عوام اگر حکومت کی طرف نہ دیکھیں تو پھر کس کی طرف دیکھیں؟ حکومت پر فرض ہے کہ کچھ بھی کرے لیکن عوام کو ریلیف پہنچانے کا اہتمام کرے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں موجودہ اضافے سے عام آدمی کی مشکلات بڑھیں گی، مہنگائی کا طوفان آئے گا اور انرجی سیکٹر میں بجلی وگیس کے بل مزید بڑھ جائیں گے جو مہنگائی کے پسے عوام کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہونگے۔ دراصل آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان سخت مالیاتی اور زرعی پالیسیوں پر عملدرآمد کرے اور انرجی کے شعبے میں بروقت ٹیرف ایڈجسمنٹ یعنی نرخ بڑھائے۔ بجٹ مزید قرضوں کے حصول کے لیے عام آدمی کی قربانی دینے کے لیے پیش اور منظور ہوا ہے۔
پاکستان میں ٹیکس کا نظام ایک طویل عرصے سے بحث کا موضوع رہا ہے جس میں بہت سے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ غیر متناسب طور پر عام آدمی کو امیروں سے زیادہ نشانہ بناتا ہے۔ پٹرول، اشیائے صرف اور دیگر ضروری اشیا پر ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ پہلے سے مشکلات کا شکار تنخواہ دار طبقے اورکارپوریشنوں پر بھاری بوجھ بن گیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح پالیسی سازوں نے انھی گروپوں پر ٹیکس لگایا ہے جو پہلے ہی قومی خزانہ بھرنے کے لیے اپنا بھر پور حصہ ڈال رہے ہیں۔ پالیسی سازوں کے پاس سوچنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف بھی موجود ہے۔
پاکستان کے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں پہلے ہی اضافہ ہوا ہے، دوسری طرف بڑے بااثر شعبے ٹیکسز میں رعایت اور نرمی سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے پاکستانی عوام کی پتلی گردن معاشی عدم مساوات کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے میں حکومت کی ناکامی کی واضح یاد دہانی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو بااثر افراد کی حمایت کرتی ہیں اور عام آدمی کو نظرانداز کرتی ہیں۔ سرکاری ملازمین کے لیے یہ بھی غنیمت ہے کہ ہر سال اس کی تنخواہ کچھ نہ کچھ بڑھ جاتی ہے لیکن نجی شعبوں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو کون یقینی بنائے گا؟ اس ضمن میں کبھی کوئی اقدامات نہیں ہوتے۔
آئی ایم ایف کا نشانہ ہمیشہ عوام بنتے ہیں، وہ سبسڈی ختم کرنے پر زور دیتا ہے یا پھر عام استعمال کی اشیاء پر ٹیکس لگانے یا بڑھانے کی شرط رکھتا ہے، اس ایک بات سے ہی اُس کی بے حسی کا اندازہ لگائیں کہ وہ ادویات پر بھی ٹیکس لگانے کی شرط عائد کر رہا ہے جب کہ اِس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ ادویات عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں،اُن پر ٹیکس لگانے کا مطلب یہ ہے آپ غریبوں کو زندہ درگور کرنا چاہتے ہیں۔
ہماری اشرافیہ کو چونکہ ہر چیز فری مل جاتی ہے یا اُس کے پاس وسائل ہی اتنے ہوتے ہیں اِس قسم کی مہنگائی اُسے چھو کر بھی نہیں گزرتی، اِس لیے وہ احتجاج نہیں کرتی، لیکن اشرافیہ کے وہ نمایندے جو اس وقت حکومت میں موجود ہیں، کم از کم انھیں تو عوام کی خاطر آئی ایم ایف کے سامنے مزاحمت کرنی چاہیے۔ بجلی،گیس اور پٹرول تو پہلے ہی آئی ایم ایف کی نگرانی میں دے کر قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے، بجلی پورے ایشیاء میں سب سے مہنگی پاکستان میں ہے جب کہ اوسط آمدنی کے لحاظ سے پاکستان سری لنکا سے بھی نیچے کھڑا ہے۔
اس ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی جو صورتحال ہے۔ اس سے عام آدمی اور خاص طور پر نوجوان مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنے اور ملک کے مستقبل کے بارے میں ناامید ہو جانا نہایت خوفناک رجحان ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس نے 2023 میں ایک سروے کیا تھا۔ اس سروے کے نتائج کے مطابق 15 سے 24 سال کی عمر کے 27 فیصد پاکستانی ملک چھوڑکر کسی دوسرے ملک منتقل ہونے کے خواہشمند ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ پاکستان میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
اس صورتحال سے قطع نظر، اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ شہباز حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔ یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں مہنگائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ خاص طور پر اشیائے خورو نوش کے نرخ کم ہوئے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کیجیے کہ عام آدمی کی زندگی پٹرولیم مصنوعات اور بجلی، گیس کے بلوں نے عذاب بنا رکھی ہے۔
نئے بجٹ میں اگر کسی ٹیکس نے مڈل کلاس کو بُری طرح متاثر کیا ہے تو وہ رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس ہے۔ حکومت نے یہاں بھی سرکاری اور نجی قانون الگ کر دیا ہے۔ وفاق اور صوبوں کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین پر پراپرٹی کی ٹرانزیکشن پر وِد ہولڈنگ ٹیکس لاگو نہیں ہو گا۔ اس نوازش کی وجہ کیا ہے، عوام بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں سرکاری ملازمین اور عام شہریوں میں یہ تفریق کیوں روا رکھی گئی ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ عام عوام سے پراپرٹی کے اضافی ٹیکس لیے جائیں اور ان کے خون پسینے کی کمائی سے سرکاری ملازمین کو سہولتیں دی جائیں؟ ویسے سرکار نے اب ہوائی جہاز کے ٹکٹوں پر جتنے ٹیکس لگا دیے ہیں شاید باہر جانا بھی اب مزید مشکل ہو جائے اور اگر مجبوراً پاکستان میں رہنا ہے تو کوئی سرکاری نوکری کر لی جائے کیونکہ جو مراعات اور سہولتیں انھیں میسر ہیں وہ نجی شعبے میں خدمات انجام دینے والے پاکستانیوں کو میسر نہیں۔
اس بجٹ پر یہی کہنا مناسب ہو گا کہ کچھ شعبوں میں عوام کو موت دکھا کر بخار پر راضی کیا گیا ہے۔ نان فائلرز کے موبائل کارڈ اور بل پر75 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز واپس لے لی گئی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکس لگانے کی تجویز دینے والے کو بھی سامنے لایا جائے۔ پھل فروش، دیہاڑی دار مزدور، ریڑھی لگانے والے کروڑوں افراد اور طالب علم نان فائلرز ہیں۔ ان سب کے موبائل کارڈز پر75 روپے ٹیکس لگانے کو کسی بھی طریقے سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس کے علاوہ مقامی سطح پر تیار ہونے والی ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 25 فیصد سے کم کر کے دوبارہ 8.5 فیصد کردیا گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں اضافہ 20 کے بجائے 10 روپے کر دیا گیا ہے۔ اگر پی ایس ڈی پی کے بجٹ کو کم کردیا جائے تو پٹرولیم لیوی بڑھانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ حکومت نے تقریباً 250 ارب روپے پی ایس ڈی پی کے بجٹ کو کم کیا ہے جس کی وجہ سے پٹرولیم لیوی میں کمی ہوئی ہے۔ بجٹ کے لیے اپوزیشن کی جانب سے دی گئی تمام تجاویز کو حکومت نے کثرتِ رائے سے مسترد کر دیا ہے۔ حکومت کا بجٹ منظور کرنا اور اپوزیشن کی تجاویز پرکان نہ دھرنا یہاں کی پارلیمانی روایت رہی ہے، جسے اب ختم ہونا چاہیے۔
دنیا بھر میں مضبوط معیشت اسے سمجھا جاتا ہے جہاں عوام میں قوتِ خرید موجود ہو، کیونکہ معیشت کا پہیہ چلتا ہی تب ہے جب عوام اُس میں حصہ لیتے ہیں۔ حکومت کو عام پاکستانی کی حالت زار کا ادراک ہونا چاہیے اور ان پر ٹیکس کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے کیونکہ یہ کرنا آسان ہے۔
حکومت کو ملک کو درپیش معاشی دباؤ کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک منصفانہ اور جامع ٹیکس نظام، جس میں سب اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں، سب کے لیے پائیدار اقتصادی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کا واحد راستہ ہے۔ حکومت کو معاشی عدم مساوات کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنے اور ایک منصفانہ اور جامع ٹیکس نظام کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس کے بعد ہی پاکستان پائیدار اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔