وہ ہستی جس کا ذکر تورات و انجیل میں ہے، جس کے دور میں قرآن کریم کی پیش گوئیاں پوری ہوئیں، جس نے سرکار دو جہاں، رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ وصیت کہ ’’یہود و نصاریٰ کو جزیرۂ عرب سے نکال دو‘‘ کو عملی جامہ پہنایا۔
جو ’’اشداء علی الکفار رحماء بینھم‘‘ کا کامل نمونہ اور اعلیٰ مظہر تھا۔ جس کا وجود عطیۂ خداوندی اور تحفۂ سماوی تھا۔ جسے بہ طور ِخاص اِسلام کے غلبے کے لیے مانگا گیا تھا۔ جس کا مسلمان ہونا، اسلام کی فتح، جس کی ہجرت مسلمانوں کی نصرت اور جس کی خلافت مسلمانوں کے لیے رحمت تھی۔ وہ مقدس ہستی جس کا رعب اور دبدبہ آج تک قائم ہے، جس سے دل دہلتے تھے، زمین کانپتی تھی، آسمان تھرتھراتا تھا اور شیاطین دور بھاگتے تھے۔ جو اس امت کا ’’محدث‘‘ تھا، تکوینیات میں سے جسے وافر حصہ ملا تھا، جس کی رائے منشاء خداوندی کے عین مطابق ہُوا کرتی تھی اور وحی اس پر مہر تصدیق ثبت کردیتی تھی، ہواؤں پر جس کی حکومت تھی اور اس کے پیغام کو دُور پہنچاتی تھی۔
دریا جس کے کہنے پر رواں دواں ہوجاتے تھے اور زمین اس کی ضرب سے تھم جاتی تھی۔ جو خلیفۂ برحق تھے، دو قبلوں کے فاتح تھے، بے شمار خصائص و کمالات رکھتے تھے، جس کے دور میں تسبیح کی طرح آس پاس کے ممالک ٹوٹ کر بکھرنے لگے اور پکے ہوئے پھل کی طرح اسلام کی جھولی میں گرنے لگے۔ یوں تو کشورکشا اور فاتحین اسلامی ادوار میں اور بھی گزرے ہیں، جنہوں نے اسلامی تخت کو پھیلایا، ریاست کی حدود میں اضافہ کیا، بحر و بر پر حکومت کی، شہروں کو فتح اور دشمن کو مغلوب اور ان کی طاقت کو پست کیا مگر مسلمان سلاطین اور ان میں یہ فرق ہے کہ انہوں نے صرف دشمن کی تلواروں کو کند کیا، ان کے سروں کو جھکایا۔ ان کے شہروں کو فتح کیا مگر ان کے دلوں کو فتح نہ کرسکے، یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے ممالک جلد یا بہ دیر اسلامی حلقۂ سلطنت سے نکل گئے۔
یہی اندلس جس پر آٹھ سو سال تک اسلامی پرچم پورے آب و تاب سے لہراتا رہا، آج اغیار کے زیر اقتدار ہے اور وہاں کا قلعۃ الحمراء اور مدینۃ الزہراء مسلمانوں کی عظمت رفتہ پر نوحہ کناں ہیں۔ ہند میں جہاں مسلمانوں نے حکومت کی اب مسلمانوں کو یہاں کی سرزمین بھلا چکی ہے۔
اسلام پر عمل گویا مٹھی میں انگاروں کو تھامنا اور کانٹوں پر چلنا ہے۔ غرض یہ کہ ہر جگہ اسلام اور مسلمانوں کی زبوں حالی، بے کسی، کم زوری اور کسم پرسی اپنے عروج پر ہے۔ اگر خالص انتظامی اور مادی نگاہ سے دور فاروقی کو دیکھا جائے تو بھی دور فاروقی اسلامی تاریخ میں منفرد اور ممتاز نظر آتا ہے۔ جو راحت اور چین ان کے دور میں مسلمانوں کو ملا تاریخ شاہد ہے کہ پھر مسلمانوں کو نہ مل سکا۔ عالمی طاقتوں کو انہوں نے سرنگوں کیا، بیت المال قائم کیا، مفتیوں اور قاضیوں کا تقرر کیا، محکمہ پولیس قائم کیا، ڈاک کا نظام جاری کیا، مردم شماری کرائی، زمین کی پیمائش کی، اسلامی کلینڈر کا اجراء کیا، مفتوحہ ممالک میں فوجی چھاؤنیاں قائم کیں، اور مفتوحہ ممالک کو صوبہ جات میں تقسیم کیا اور تن خواہوں میں اضافے کے طریقہ کار کا اصول جاری کیا۔
اب تک کی خامہ فرسائی سے آپ بہ خوبی جان گئے ہیں کہ سیّدنا ابوحفص عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ کے متعلق گفت گُو ہو رہی ہے۔
نام عمر، کنیت ابوحفص، اور لقب فاروق اعظم اور ولدیت خطاب تھی، نویں پشت میں سلسلۂ نسب آقائے نام دار سرور دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ بچپن میں اونٹ چرائے اور جوانی میں شرفاء کے علوم حاصل کیے۔ نزول وحی کے وقت ان سترہ ہستیوں میں سے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ بہترین شاہ سوار تھے گھوڑے پر اچھل کر سوار ہو جاتے تھے، قوی جسمانی قوت و طاقت رکھتے تھے، عرب کے میلوں میں پہلوانی کرتے تھے۔
علم الانساب کے ماہر تھے اس لیے افراد اور قبائل کے نسبی حالات اور ان کی خاندانی خصوصیات اور ذاتی کمالات سے بھرپور واقفیت رکھتے تھے، اس لیے جو تقرر کرتے تھے درست اور موزوں کرتے اور عہدے کے لیے انتخاب میں غلطی نہیں ہوتی تھی۔
خاندانی وجاہت اور اونچے حسب و نسب کی بہ دولت سفارت کاری کا عہدہ ان کے خاندان کے پاس قدیم سے چلا آتا تھا۔ خود حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ قریش کے سفیر مقرر تھے۔ سفارت کے لیے سفراء میں متانت، سنجیدگی، معاملہ فہمی اور ذاتی وجاہت اس دور میں لازم سمجھی جاتی تھی اور یہ تمام خصائص و صفات حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے خاندان کو حاصل تھیں۔ دوسری طرف روحانیت، اخلاص و للہیت کے لیے لازم صفات و خصائص میں درجۂ انتہاء تک پہنچے ہوئے تھے۔
حضرت سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے بہ قول: ’’حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہؓ میں یہ فرق ہے کہ دیگر صحابہؓ مرید رسول ﷺ تھے اور حضرت عمرؓ مرادِ رسول ﷺ تھے۔‘‘
حقیقت میں ان کا اسلام حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کامعجزہ تھا کیوں کہ اسلام سے پہلے ایسے کوئی شواہد و آثار اور خارجی قرائن و علامات نہیں تھے جن سے ان کے اسلام کی توقع جاسکتی ہو۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو زمانۂ بعثت سے نبوت کے ساتھ دوستی اور محبت کا شرف حاصل تھا، حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا نبوت کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، حضرت علی رضی اﷲ عنہ تو نبوت کی گود میں پلے بڑھے تھے۔ مگر یہ تو سر لینے آرہے تھے اور سر دے کر چلے گئے۔
ایسی جامعیت کی حامل اور ہمہ جہت شخصیت کہ سنّت رسول کریم ﷺ کی اتباع میں امامت، خطابت، وعظ و نصیحت اور تزکیہ و اصلاح بھی فرما رہے ہیں اور غنیمت کی تقسیم، میدان جنگ کے نقشے، سفراء سے ملاقات اور بیرون ممالک کے اسفار بھی فرما رہے ہیں۔
بہادری اور شجاعت ایسی تھی کہ باطل تار عنکبوت معلوم ہوتا تھا اور عاجزی و انکساری اس قدر کہ خاک کو بستر بناتے، بیواؤں کے لیے پانی بھرتے اور خود اونٹوں پر تیل ملتے تھے۔ قیصر کا نمائندہ ملنے آیا اس نے خلیفہ کے متعلق پوچھا لوگوں نے امیر المومنینؓ کی طرف اشارہ کیا جو اس وقت سر کے نیچے اینٹ رکھے زمین پر آرام فرما رہے تھے، وہ بولے: ’’عمر تمہیں آرام کا حق ہے تم جہاں چاہو آرام کرسکتے ہو مگر حکم راں رعایا پر ظلم کرتے ہیں اس لیے چین کی نیند نہیں سو سکتے ہیں۔‘‘
آج مسلمان دور فاروقی کی طرح امن، سکون، چین اور راحت چاہتے ہیں۔ ہر ایک کی قلبی تمنا ہے کہ پھر سے اسلام کو غلبہ اور مسلمانوں کو برتری نصیب ہو، مگر وہ فاروقی نسخہ آزمانے کے لیے ہماری طبیعتیں آمادہ نہیں ہیں، ہم پھل چاہتے ہیں مگر درخت کی آب یاری کے لیے تیار نہیں، نتائج سے غرض رکھتے ہیں مگر اس سے پہلے کے مراحل سے گزرنا نہیں چاہتے۔ منزل ہمیں مطلوب ہے مگر رخ ہمارا مخالف سمت میں ہے، غیروں کے نسخوں سے اپنا علاج، ان کے افکار سے اپنی اصلاح اور ان کے نظام سے اپنی تنظیم چاہتے ہیں۔ مگر نگاہوں میں دور ِفاروقی کے خواب سجائے ہوئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے جو نسخہ آزمایا تھا وہ خود قرآن کریم میں مسلمانوں کے لیے تجویز ہُوا ہے: ’’اگر تم مومن (صادق) ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔‘‘