محرم الحرام کا آغاز ہوچکا ہے، اس ماہ مقدس کا پہلا عشرہ خاص طور پر بہت حساس ہوتا ہے کیونکہ یہ شہادتوں کا مہینہ اور خون عمر و حسین سے رنگین عشرہ ہے، جس کی پہلی تاریخ کو مراد رسول، خلیفہ ثانی امیرالمومنین سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اندوہناک سانحہ پیش آیا جس پر ہم گزشتہ کالم میں مفصل انداز میں لکھ چکے ہیں اور محرم کی دس تاریخ کو نواسہ رسول، جگر گوشہِ بتول سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کا دل دہلا دینے والا سانحہ پیش آیا۔ اسی لیے محرم الحرام کا مقدس مہینہ حق و باطل کی جنگ میں باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے۔
معرکہ کربلا یہ سبق دیتا ہے کہ حق کی راہ پر چلنے میں شدید دشواریاں ہیں مگر پھر بھی جو اس راہ پر چلتا ہے، بے پناہ قربانیاں دیتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتا ہے۔ معرکہ کربلا اپنے پیچھے حق و باطل کی ایسی داستانیں چھوڑ گیا جو رہتی دنیا تک انسانیت کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ نواسہ رسولﷺ حضرت حسینؓ نے اہل و عیال، دوست احباب سب کچھ قربان کر کے رہتی دنیا تک باطل کا راستہ روک دیا، پر اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے۔ کربلا میں حضرت حسینؓ اور ان کے خانوادے کی قربانی کو کئی صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی انتہائی عقیدت و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔
مسلمان چاہے کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہو وہ اسلام کے ان عظیم شہداء کی یاد اپنے اپنے انداز میں مناتا ہے لیکن بعض شر پسند عناصر مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا کر ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں ایسے شواہد بھی سامنے آئے کہ ایسے عناصر کو پاکستان دشمن غیر ملکی ایجنسیاں فنڈنگ کرتی ہیں تاکہ وہ پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کو بھڑکائیں لیکن الحمدللہ ملک کے جید اور اکابر علمائے کرام مل کر ایسی سازشوں کو ناکام بنا رہے ہیں۔
چند برس پہلے پاکستان کے جید علماء و شیوخ نے ایسی سازشوں کے سد باب اور بین المسالک ہم آہنگی و رواداری کے پیش نظر پیغام پاکستان کا متفقہ بیانیہ جاری کیا، یہ ایسی دستاویز ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسلامی جمہوریہ ِ پاکستان کے متفقہ دستور کے تقاضوں کے عین مطابق ہے یہ دستاویز قیام امن کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، علماء نے اپنا فرض ادا کردیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ مطالبہ کرتے رہے کہ اسے قانونی شکل دی جائے تاکہ کسی کو اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنے دیا جائے، جو تجاوز کرے، قانون کی گرفت میں آجائے لیکن آج تک اس اہم ترین دستاویز کو قانون کا حصہ نہیں بنایا گیا، جس کی وجہ سے سماج دشمن عناصر بیرونی ایجنسیوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنتے ہیں اور چند ٹکوں کے عوض ملک میں بدامنی پھیلاتے ہیں۔
اگر پیغامِ پاکستان کو قانون کا حصہ بنا دیا جاتا، اگر پارلیمان سے منظور ہونے والے توہین صحابہ و اہلبیت ترمیمی بل پر اس وقت کے صدر عارف علوی دستخط کردیتے تو حالات کافی حد تک بہتر ہو جاتے۔ ہم خود ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ لوگوں میں قانون ہاتھ میں لینے کی تحریک پیدا ہو حالانکہ کوئی اس پرتشدد عمل کی حمایت نہیں کرتا لیکن کم ازکم ریاست اور حکومت تو اپنی ذمے داریاں پوری کریں۔
محرم شروع ہوتے ہی صوبائی امن کمیٹیاں حرکت میں آجاتی ہیں، دھڑا دھڑ اجلاس شروع ہوجاتے ہیں، ان کمیٹیوں میں اکثریت ایسے علماء کی ہوتی ہے جن کی اپنے اپنے مسالک میں حیثیت ثانوی ہوتی ہے لیکن انتظامیہ محض خانہ پری کے لیے انھیں دو رائے رکھتی ہے۔ لیکن اس طرح ملک میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ پیغامِ پاکستان بیانیہ پر غور کرنا ہوگا۔ ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے 1800 سے زائد جید علماء و شیوخ نے اس دستاویز پیغام پاکستان کے متفقہ بیانیہ پر دستخط کیے ہیں۔ علماء وشیوخ نے متفقہ بیانیہ میں کہا ہے کہ “فرقہ وارانہ منافرت، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکام کی مخالفت اور فساد فی الارض ہے، نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کی رو سے ایک قومی اور ملی جرم ہے۔
ہر مکتب فکر اور مسلک کو مثبت اور معقول انداز میں اپنے عقائد اور فقہی نظریات کی دعوت و تبلیغ کی شریعت اور قانون کی رو سے اجازت ہے، لیکن اسلامی تعلیمات اور ملکی قانون کے مطابق کسی بھی شخص، مسلک یا ادارے کے خلاف اہانت، نفرت انگیزی اور اتہام بازی پر مبنی تحریر و تقریر کی اجازت نہیں۔ صراحت، کنایہ اور اشارہ کے ذریعے کسی بھی صورت میں انبیائے کرام و رُسل عُظام علیھم السلام ، اہل بیت اطہار، صحابہ کرام، شعائر اسلام اور ہر مسلک کے مسلمہ اکابر کی اہانت کے حوالے سے ضابطہ فوجداری کے آرٹیکل 298-295 کی تمام دفعات کو ریاستی اداروں کے ذریعہ لفظاً اور معناً نافذ کیا جائے اور اگر ان قوانین کا کہیں غلط استعمال ہوا ہے تو اس کے ازالے کی احسن تدبیر ضروری ہے، مگر قانون کوکسی صورت میں کوئی فرد یا گروہ اپنے ہاتھ میں لینے اور متوازی عدالتی نظام قائم کرنے کا مجاز نہیں۔ مسلمانوں میں مسالک و مکاتب فکر قرون اُولٰی سے چلے آرہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔
ان میں دلیل و استدلال کی بنیاد پر فقہی اور نظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہیں گے، لیکن یہ تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہیں اور ان کا اصل مقام درس گاہیں ہیں۔ اختلاف رائے کے اسلامی آداب کو تمام سرکاری و نجی درسگاہوں کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔ پُر امن بقائے باہمی اور باہمی برداشت کا فروغ، پُر امن اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے، اس لیے اسلام کے اصولوں کے مطابق جمہوریت، حریت، مساوات، برداشت، رواداری، باہمی احترام اور عدل و انصاف پر مبنی پاکستانی معاشرے کی تشکیل جدید ضروری ہے۔
اس مقصد کے لیے ملک کے اہل علم و دانش اور اہل اختیار و اقتدار کو مطلوبہ کاوشوں کو مربوط طریقہ سے ہم آہنگ کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔ اسلام احترامِ انسانیت اور اکرام مسلم، نیز بزرگوں، بچوں، خواجہ سراؤں، معذوروں اور دوسرے محروم طبقوں کے تحفظ کے لیے جو تعلیمات دیتا ہے ان کی سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ترویج ضروری ہے، نیز پاکستانی معاشرے میں انسانی و اسلامی بھائی چارے اور مواخات جیسے اسلامی اداروں کے احیاء کے ذریعے صحیح اسلامی معاشرے کے قیام کے اقدامات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔ لاؤڈاسپیکر کے ہر طرح کے غیر قانونی استعمال کی ہر صورت میں حوصلہ شکنی کی جائے اور متعلقہ قانون پر من و عن عمل کیا جائے اور منبر و محراب سے جاری ہونے والے نفرت انگیز خطابات کو ریکارڈ کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے، نیز ٹیلی ویژن چینلوں پر مذہبی موضوعات پر مناظرہ بازی کو قانوناً ممنوع اور قابلِ دست اندازیِ پولیس قرار دیا جائے۔‘‘ یہ اہم نکات صرف محرم نہیں بلکہ بارہ مہینے امن قائم کرنے کا فارمولا ہیں۔