حضورِ اقدسﷺ نے اپنے ’’ اہل بیت اطہارؓ ‘‘ کے ساتھ نیک اور عمدہ سلوک کرنے والے کو پسند فرمایا ہے اور ان کے ساتھ برا اور غلط سلوک کرنے والے کو ناپسند فرمایا ہے۔
حضرت جُمیع بن عمیرؒ کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں اپنی پھوپھی کے ساتھ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کو سب سے زیادہ محبت کس سے تھی؟، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے، پھر میں نے پوچھا مردوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے تھی؟، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ: ’’ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر (حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ) سے (جامع ترمذی)۔
حضرت مسور بن مخرمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’فاطمہؓ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے، جس نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو خفا کیا اُس نے مجھے خفا کیا‘‘ (بخاری ومسلم)، حضرت براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ حضرت حسنؓ آپﷺ کے کندھے پر سوار تھے اور آپﷺ فرما رہے تھے: ’’اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر‘‘ (بخاری و مسلم)۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ دن کے ایک حصہ میں باہر نکلا، جب آپﷺ حضرت فاطمہؓ کے گھر میں پہنچے تو پوچھا: کیا یہاں ’’منا‘‘ ہے؟ کیا یہاں ’’منا‘‘ ہے؟ آپﷺ کی مراد حضرت حسن رضی اللہ عنہ تھے، ابھی آپﷺ نے چند ہی لمحے گزارے تھے کہ حضرت حسن ؓ آپﷺ کے گلے سے لپٹ گئے اور پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، پس تو بھی اس سے محبت کر اور جو اس سے محبت کرے تو اُس سے بھی محبت کر‘‘ (بخاری و مسلم)۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’حسنؓ اور حسینؓ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں‘‘ (جامع ترمذی)، حضرت اُسامہ بن زیدؓ کہتے ہیں کہ میں ایک دن رات میں اپنی کسی ضرورت سے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ (اپنے گھر کے اندر سے) اس حال میں باہر تشریف لائے کہ کسی چیز کو اپنے ساتھ لپیٹے ہوئے تھے اور میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا چیز تھی، پھر جب میں اپنی ضرورت کو عرض کرچکا تو پوچھا کہ یہ کیا چیز آپﷺ نے لپیٹ رکھی ہے؟۔
آپ ﷺ نے اُس چیز کو کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حسنؓ و حسینؓ ہیں جو آپﷺ کی دونوں کوکھوں پر تھے(یعنی آپﷺ نے ان دونوں کو گود میں لے کر چادر سے لپیٹ رکھا تھا)، پھر آپﷺ نے فرمایا کہ: ’’یہ دونوں میرے بیٹے ہیں (کہ نواسے بھی بیٹے ہی ہوتے ہیں) اور (حقیقتاً) میری بیٹی (حضرت فاطمہؓ) کے بیٹے ہیں۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ ’’ آپﷺ کے ’’ اہل بیت‘‘ میں سے کون شخص آپﷺ کو سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہے؟‘‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’حسنؓ اور حسینؓ ‘‘ اور (حضرت انسؓ نے یہ بھی بیان کیا کہ (آنحضرت ﷺ جب کسی وقت حضرت حسنؓ و حسینؓ کو گھر میں نہ دیکھتے توحضرت فاطمہ ؓسے فرماتے کہ: ’’میرے دونوں بیٹوں کو بلا لاؤ‘‘پھر جب (حضرت حسنؓ و حسینؓ آجاتے تو) آپﷺ ان دونوں کے جسموں کو سونگھتے (کیوں کہ وہ آپﷺ کے دو پھول تھے) اور ان دونوں کو اپنے گلے سے لگا لیتے(جامع ترمذی)۔
حضرت یعلی ٰ بن مرۃ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں‘‘ (جامع ترمذی)۔
حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت ہے کہ (ایک دن) میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں آج مغرب کی نماز جا کر رسول اللہﷺ کے ساتھ پڑھوں اور پھر آنحضرت ﷺ سے درخواست کروں کہ وہ میرے اور آپ کیلئے بخشش و مغفرت کی دُعا فرمائیں‘‘، چنانچہ (میری والدہ نے مجھے اجازت دے دی اور) میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی، آپﷺ (مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد) نوافل پڑھتے رہے، یہاں تک کہ پھر عشاء کی نماز پڑھی۔
اور جب آپﷺ نے میری آواز سنی تو پوچھا کہ ’’کون ہے؟‘‘، اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہاری والدہ کو بخشش و مغفرت سے نوازے! (دیکھو) یہ ایک فرشتہ ہے جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اُترا، اِس فرشتہ نے اپنے پروردگار سے اس بات کی اجازت لی ہے کہ (زمین پر) آ کر مجھے سلام کرے اور مجھے اس بات کی خوشخبری سنائے کہ ’’ فاطمہؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور حسنؓ و حسینؓ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں‘‘۔
غرض یہ کہ جس طرح ’’اہل بیت اطہار‘‘ سے محبت و عقیدت رکھنا، ان کا ادب و احترام کرنا، اُن کی تعظیم و توقیر بجالانا ایمان کی معراج کہلاتا ہے، تو اسی طرح اُن سے بغض و نفرت رکھنا، ان کی بے ادبی و بے احترامی کرنا اور اُن کی توہین و تذلیل کو روا رکھنا دین اسلام سے بیزاری کہلاتا ہے۔