چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہے کہ پہلے بنچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کیس کا فیصلہ کیا ہو گا، میں کیس میں سے بدنیتی کا عنصر نکال دیتا ہوں، ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے،اب کسی کی قسمت کیس کہاں لگتا ہے.
سپریم کورٹ آف پاکستان میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا جس کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔
جسٹس منصور علی شاہ بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ شریعت اپیلٹ بنچ کے ارکان جسٹس قبلہ ایاز اور جسٹس خالد مسعود نے بھی فل کورٹ ریفرنس میں شرکت کی۔
فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس طرح کے موقعوں پر اس بات پر نظر ڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارگردگی کیسی رہی، اٹارنی جنرل اور بار کے نمائندوں نے بتایا کہ کس طرح کارگردگی بہتر کی جا سکتی ہے، مجھے 9 دن بعد بطور چیف جسٹس ایک سال مکمل ہو جائے گا، میں جب چیف جسٹس بنا تو 4سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ بلایا۔
پہلے بنچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا
انہوں نے کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کی پروسیڈینگ کو براہ راست نشر کرنے کا آغاز بھی کیا، پہلا مقدمہ ہو براہ راست دکھایا گیا وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تھا جو فل کورٹ نے ہی سنا، اس فیصلہ کے بعد اختیار چیف جسٹس سے لے کر 3 ججز کو سونپے گئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کیس میں سے بدنیتی کا عنصر نکال دیتا ہوں، کچھ لوگ پراسکیوشن کی بات زیادہ مانتے ہیں، پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا، اب تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں جانب کون سے ججز کیس سنیں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پہلے کاز لسٹ منظوری کے لیے چیف جسٹس کے پاس جاتی رہی، اب ایسا نہیں ہوتا، ہر جج کا کچھ نہ کچھ رجحان ہوتا ہے اس لیے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کیس اس جج کے پاس لگے گا تو کسے فائدہ ہو سکتا ہے، ہر وکیل یہ چاہتا تھا کہ اس کا کیس فلانے جج کے پاس لگ جائے، یہ بھی ختم ہوگیا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وکیل کا جج کے ساتھ کوئی رابطہ ہے لیکن ان کو پتا کہ اس جج کا رجحان کس طرف ہے تو یہ سسٹم ہم نے ختم کردیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ماہانہ کاز لسٹ اب شروع ہوگئی ہے ، اب بنچز بنانے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا نہیں ہے، رجسٹرار صاحبہ کو ہدایت ہے کہ اب 2ہفتے والی کاز لسٹ بھی شائع ہونے چاہیے، کاز لسٹ سے وکلا کو بھی سہولت ہوتی ہے، لوگ چاہتے ہیں میرا کیس جلدی سے لگ جائے ۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کچھ مخصوص قسم کے کیسز جن کا قانون میں اندراج ہے ،اس کا فیصلہ مقننہ نے کیا ہے کہ وہ اہمیت کے حامل کیسز ہیں، ہم نے خود بھی کچھ کیسز کے احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ جلدی لگیں۔
تبصرے ضرور کیجیے حقیقت کی بنیاد پر مفروضوں پر نہیں
انہوں نے کہا کہ مجھے کبھی کبھی ہنسی آتی ہے،پرانے صحافیوں کو کوئی بات پسند نہ آئے تو کہتے ہیں چیف جسٹس نے مقدمہ نہیں لگایا، تبصرے ضرور کیجیئے حقیقت کی بنیاد پر مفروضوں پر نہیں، آپ کی ذمہ داری ہے سچ بتائیں اور سچ بولیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ڈیپوٹیشن عرصہ دراز سے سپریم کورٹ میں بیٹھے تھے،ان کو رخصت کیا، ڈیپوٹیشن پر آیا ہوا صرف 3سال کیلئے آسکتا ہے، یہ غیر قانونی عمل ہے کہ طویل عرصے سے ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے بیٹھے ہوں، قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ایک مدت سے زیادہ ڈیپوٹیشنسٹ ہوں، ڈیپوٹیشنسٹ کے جانے سے سپریم کورٹ کے 146ملازمین کی ترقی ہوئی۔
ان کاکہنا تھا کہ بہت ساری آسامیاں تھیں جو عرصے دراز سے بھری نہیں گئی تھیں، اشتہار دے کر شفافیت کی بنیاد پر 78آسامیاں بھری گئی، آپ اور ہم یہاں عوام کیلئے ہیں، میرے لیے 3000سی سی مرسڈیز کی ضرورت نہیں تھی اس کو لوٹا دیا گیا، حکومت کو کہا یہ بیچ کر عوام کیلئے بسیں خریدیں تو ان کا بھلا ہو، ہمیں ٹویوٹا اور دوسری گاڑی چلانے میں کوئی تکلیف نہیں، مرسڈیز کی بھی کروڑوں کی قیمت ہوتی ہے، یہ عوام کے پیسے ہیں اور ان کی امانت ہیں۔
کراچی میں 36سرکاری عدالتیں ایک جگہ منجمد ہونی چاہئیں
چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی میں ایک بہت بڑا پراجیکٹ بن رہا تھا، ہائی کورٹ کے سامنے الیکشن کمیشن ہوتا تھا، کراچی کے دل میں بہت بڑی جگہ ہے،وہ سپریم کورٹ کو دی گئی، سرکار کو کہا ہے کراچی میں 36وفاقی عدالتوں کو ایک جگہ بنائیں، اب یہ ذمہ داری وفاقی کی ہے،یاد دلاتا رہتا ہوں اس پر جلد سے جلد کام کریں، اب ہمیں دوسری جگہ جانے کی ضرورت کم پڑرہی ہے کیونکہ ویڈیو لنک سماعت کی سہولت ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں 6ارب اور 7ایکڑ زمین کی اب ضرورت نہیں ہے، ہمارے کچھ ملازمین خوش بھی ہوتے ہیں اور کچھ ناراض بھی، سپریم کورٹ کے ملازمین کی تنخواہیں سرکاری تنخواہیں سے سب سے زیادہ ہیں، پہلے سال کے اختتام پر 3گراس تنخواہوں کو ایک کردیا، بہت سے ملازمین سپریم کورٹ کے نہیں بھی ہوتے لیکن اس کیلئے کام کرتے ہیں، سب ملازمین کو 25ہزار روپے کا بونس دیا گیا، ہم دنیا بھر کی مثالوں کی بات کرتے ہیں، تنقید کرنے والے ہیں،تعریف کرنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔
سب لوگوں کے بنیادی حقوق بہت اہم ہوتے ہیں
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں لوگوں کے نہیں کچھ اہم لوگوں کے بنیادی حقوق اہم ہیں، سب لوگوں کے بنیادی حقوق اہم ہوتے ہیں، مفروضوں پر نہ چلیں ،ہوسکتا ہے بتانے والے غلط فہمی میں ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سب کو پتہ ہے نگران حکومت تھی اور الیکشن نہیں ہورہے تھے، الیکشن پٹیشن سپریم کورٹ کے سامنے آئی،تین دن سنوائی ہوئی،بارہ دن میں فیصلہ ہوگیا، ہم نے اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا، صدر صاحب فرمارہے تھے الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے، الیکشن کمیشن کہہ رہا تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار ہمارا ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ رکاوٹ ڈالنے والے ہر چیز میں ہی ڈھونڈ لیتے ہیں، لاہور ہائی کورٹ کی حدود صوبے تک ہوتی ہے، لاہور ہائی کورٹ نے کہا ریٹرننگ افسران عدلیہ سے دیئے جائیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو ہٹایا، اگر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ رہتا تو فروری میں الیکشن نہ ہوپاتے، الیکشن جمہوریت کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں، پارلیمان قانون بناتی ہے،ہمارا کام ہے اس کی تشریح کریں۔
لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ رہتا تو فروری میں الیکشن نہ ہوپاتے
ان کاکہنا تھا کہ آپ دوسروں سے شفافیت مانگیں اور احتساب اپنا نہ کریں تو بات میں وزن نہیں ہوتا اور نہ فیصلوں کی قدر ہوتی ہے، تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کو برطرف کردیا ہو،بدانتظامی کی وجہ سے، اس عدالت نے بھی غلطیاں کی ہیں، جب تک غلطیوں کا اعتراف نہ کریں درست سمت کی طرف گامزن نہیں ہوتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا قتل عدالتی فیصلے سے ہوا، ہم نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا کیس سنا، یہ کیس شروع میں چلا تھا پھر 10سال تک نہیں چلا، ایک اسلام آباد کے جج کو غلط طریقے سے برطرف بھی کیا گیا تھا، آئین میں ایک شق ہے لیکن سمجھی جاتی ہے کہ اس پر عمل نہیں ہوا، ہم نے آرٹیکل 6کی شق پر عمل کرکے دکھایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ غداری کا مقدمہ چلا تھا،ایک آئین شکن جنرل پرویز مشرف پر، لاہور ہائی کورٹ کے پاس اختیار نہیں تھا،اس کی اپیل اور فیصلہ سپریم کورٹ میں کیا جاتا ہے، آئین شکن کو سپریم کورٹ کی جانب سے قصور وار ٹھہرایا گیا، کراچی میں نسلہ ٹاور کا کیس بھی ہم نے سنا، مارگلہ پہاڑی نیشنل پارک کا کیس بھی اہمیت کا حامل تھا۔
ہم نے بہت سارے اقدامات کیے ہیں جو سسٹم میں بہتری لائیں
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے بہت سارے اقدامات کیے ہیں جو سسٹم میں بہتری لائیں، قانون کہتا ہے سپریم کورٹ 16ججز اور ایک چیف جسٹس پر مشتمل ہے، یہ سپریم کورٹ کئی سالوں سے مکمل نہیں تھا،ہم نے 16ججز مکمل کیے، صرف پلاننگ سے کیسز کم نہیں ہوں گے،ججز کو بھی کام کرنا ہے، رواج شروع کیا ہے کہ تاریخوں والا رواج ختم کردیا ہے، کیسز جس دن لگیں اس دن چلیں،ججز کو بھی درخواست ہے ان کو چلائیں۔
سپریم کورٹ میں 15ہزار سے زائد کیسز نمٹاچکے ہیں
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایڈہاک ججز نے چھٹیوں میں کام کیا ہے،245کیسز نمٹائے، پیر سے جمعے تک 10کیسز روزانہ کی بنیاد پر نمٹائے، ہم پر جو تنقید ہے وہ اکثر جائز ہے، اب تک 15ہزار سے زائد کیسز نمٹاچکے ہیں، شریعت ایپلیٹ بنچ سپریم کورٹ سے ہٹ کر ہے، ہمارے پاس ایک عالم جج رہ گئے تھے،ایک کی کمی تھی، ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے ذمہ داری قبول کی، ہم نے اس ادارے کو بھی 4سال بعد فعال کردکھایا گیا، ہمارے عالم ججز کوئی عام نہیں ہیں۔
ان کامزید کہنا تھا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کے پاس سے اپیلیں شریعت ایپلیٹ بنچ کے پاس آتی ہیں جو 40فیصد نمٹالی ہیں، وکلا کے منتخب نمائندوں سے ہماری میٹنگ ہوئی، آپ تنقید بے شک کریں لیکن جھوٹی خبر نہ چلائیں، ہم تو مان لیتے ہیں تو غلطی کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ کبھی نہیں مانتے، یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی انصاف کو بہتر فراہم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
شاید ہی دنیا میں ایسی سپریم کورٹ ہیں جو رپورٹ شائع کرتی ہیں
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کاکہنا تھا کہ چھٹیوں میں 15جولائی سے لیکر 6ستمبر تک سیکڑوں کیسز کا فیصلہ ہوا، ہم نے اب چھٹیاں بھی کم کردی ہیں، یہ نہیں کہتا کہ بہت اچھے کام کیے ہیں ،ابھی کچھ باقی ہیں، شاید ہی دنیا میں ایسی سپریم کورٹ ہیں جو رپورٹ شائع کرتی ہیں، ہم نے اپنی ویب سائٹ پر سہ ماہی رپورٹس شائع کردی ہیں، آپ کو موقع ملے ضرور دیکھیں دو سہ ماہی رپورٹ شائع ہوچکی ہیں،تیسری بھی ہوجائے گی۔
عدالتی سال کی تقریب ماضی سے سبق سیکھنے کا ایک موقع ہوتا ہے: اٹارنی جنرل منصور عثمان
قبل ازیں اٹارنی جنرل منصور عثمان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئے عدالتی سال کی تقریب ماضی سے سبق سیکھنے کا بھی ایک موقع ہوتا ہے ، گزشتہ سال بھی کہا تھا جوڈیشل سسٹم میں اہم ترین وہ عام سائلین ہیں جو انصاف کیلئے رجوع کرتے ہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ سائلین کی امیدیں ٹوٹنے کی ذمہ داری نظام انصاف سے منسلک ہم تمام لوگوں پر عائد ہوتی ہے ، مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر سے زیادہ سائلین کو کوئی اور چیز ناامید نہیں کرتی، فوجداری مقدمات میں لوگوں کی آزادی اور زندگیاں داؤ پر لگی ہوتی ہیں ، کئی مرتبہ ملزمان اور مجرمان کے مقدمات کی باری آنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ بے گناہ کا دہائیوں تک جیل میں رہ کر رہا ہونا بھی کسی سانحہ سے کم نہیں ہوتا ، انہوں نے اپنی تقریر میں سزائے موت کے قیدیوں سے متعلق جسٹس جمال مندوخیل کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے فیصلے میں قیدیوں کے حالات کی بہترین عکاسی کی۔