مظلوم اہلِ فلسطین : فیصلہ ساز عالمی قوتوں کا ضمیر

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی کو تاریخ کی بدترین صورتحال قرار دیا ہے۔ دوسری جانب سعودی وزیر خارجہ نے قاہرہ میں عرب لیگ کے 162ویں اجلاس کے بعد کہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں داخل ہونے والی امداد میں رکاوٹیں ڈالنا جنگی جرم ہے۔ جب کہ غزہ میں اسرائیلی مظالم کا سلسلہ جاری ہے، اسرائیلی فورسز کے پناہ گزینوں کی خیمہ بستی پر فضائی حملے کے نتیجے میں مزید چالیس فلسطینی شہید اور ساٹھ زخمی ہوگئے۔

فلسطین پر اسرائیل دن رات بمباری کر رہا ہے، معصوم بچوں کو شہید کر رہا ہے، غزہ اس وقت مکمل طور پر اسرائیلی بمباری سے زمین بوس ہو چکا ہے، سیکڑوں نہیں ہزاروں لوگ اسرائیلی بمباری سے شہید ہو چکے ہیں، اسپتال مردہ خانوں میں بدل گئے ہیں، خواتین اور بچوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے ہر ایک کو اسرائیل ظلم کا نشانہ بنا رہا ہے اور اتنا ظلم ڈھانے کے باوجود امریکا کی نظر میں فلسطینی ظالم اور اسرائیلی مظلوم ہیں۔

دوسری طرف غزہ میں جاری اسرائیل کی جنگ نے وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کو ایک مشکل صورتِ حال سے دوچار کردیا ہے اور کئی اسرائیلیوں نے حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ طے کرنے میں ناکامی اور غزہ تنازع کے بارے میں ان کی حکومت کے طرزِ عمل کے خلاف احتجاج کیا ہے جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بہت زیادہ ہوئیں اور اسرائیلی یرغمالیوں کو بہت کم تعداد میں بچایا گیا۔ نیتن یاہو کی مقبولیت میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے تیزی سے کمی آئی ہے۔

60 فیصد سے زیادہ اسرائیلیوں کہتے ہیں کہ انھیں اگلے انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہیے اور استعفیٰ دے دینا چاہیے جب کہ ان کے مقابلے میں صرف 22 فیصد نے کہا ہے کہ انھیں دوبارہ وزیرِ اعظم بننے کے لیے انتخاب لڑنا چاہیے۔ درحقیقت بڑھتا ہوا عدم اطمینان بالآخر حکومت کی تبدیلی پر منتج ہو سکتا ہے۔ جنگ بندی معاہدہ طے کرنے میں نیتن یاہو کی پس و پیش کی یہ وجہ سے ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی طاقت کو تنازعے کے خاتمے پر ترجیح دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ بڑھتا ہوا عدم اعتماد اس حد تک پھیل جائے گا جہاں اسے جاری رکھنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔

نیتن یاہو کے یہ معاہدہ نہ کرنے کی وجہ بہت سادہ ہے، اگر کوئی معاہدہ ہو جائے تو حکومت نہیں رہے گی اور اس لیے انھیں حکومت پر اپنے مسلسل کنٹرول یا کسی معاہدے میں سے کوئی ایک انتخاب کرنا ہو گا جس سے یرغمالی بچ جائیں اور فوجی کارروائی ختم ہو جائے۔ دراصل اسرائیلی حکومت جاری تنازعہ پر بیرونی آوازوں اور ماہرین کی آراء کو نظر انداز کر رہی ہے اور اس کے بجائے انتہائی نوعیت کی بیان بازی اور انفرادی سیاسی مفادات پر توجہ دے رہی ہے۔ اسرائیلی حکام تسلط برقرار رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے خلاف ادارہ جاتی امتیاز میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جو سیکڑوں یہودی قصبوں سے فلسطینیوں کے مؤثر اخراج کی اجازت دیتے ہیں اور ایسے بجٹ بھی شامل ہیں جو یہودی اسرائیلی بچوں کے اسکولوں کے مقابلے میں فلسطینی بچوں کے اسکولوں کے لیے بہت کم وسائل کی تخصیص کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں پر ظالمانہ فوجی نظام رائج ہے جب کہ اسی علاقے میں آباد یہودی اسرائیلیوں کو اسرائیل کے حقوق کے احترام پر مبنی دیوانی قانون کے تحت مکمل حقوق حاصل ہیں۔ سنگین ریاستی ظلم کی یہ شکلیں منظم جبر کے مترادف ہیں اور یہ صورتحال نسلی امتیاز کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔

اسرائیلی حکام نے فلسطینیوں پر متعدد مظالم کا ارتکاب کیا ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں ان میں سے کئی مظالم بنیادی حقوق کی پامالیوں اور غیرانسانی افعال کا حصہ ہیں اور نسلی امتیاز کے زمرے میں آتے ہیں۔ اسرائیلی حکام کو جبر اور امتیاز کی ایسی تمام اقسام کو ترک کرنا ہوگا جن کی وجہ سے یہودی اسرائیلیوں کو فلسطینیوں پر فوقیت حاصل ہے۔ اور اس حوالے سے نقل و حرکت کی آزادی، اراضی و وسائل کی تخصیص، پانی، بجلی اور دیگر سہولیات تک رسائی اور تعمیراتی اجازت ناموں جیسے معاملات میں برتا جانے والا امتیازی سلوک بھی ختم کرنا ہوگا۔

دوسری جانب اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم پر دنیا کا دہرا معیار سامنے آ چکا ہے، وہی مغرب جو یوکرین روس کی جنگ میں تو روس کی مذمت کرتے نہیں تھکتا اور پوری دنیا پر زور ڈال رہا ہے کہ یوکرین روس جنگ میں یوکرین کی مالی و عسکری نہیں تو کم ازکم اخلاقی مدد تو ضرور کی جائے لیکن جب فلسطین کی باری آتی ہے تو یہی مغرب جو مظلوم کا ساتھی ہونے کا دعویدار ہے اس کا دوغلا پن ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب جو خود کو آزادی رائے کا چیمپئن قرار دیتا ہے اس کے اکثر ممالک میں فلسطین کی حمایت میں احتجاج کرنے اور اسرائیل کو ظالم کہنے پر پابندی لگا دی گئی ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ اس وقت مغرب حقیقی معنوں میں ظالم کا ساتھی ہے اور یہ مغربی دنیا کی شہ ہے جس کی وجہ سے اسرائیل سانپ بن کر پھنکار رہا ہے اور مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنے کی دھمکیاں لگا رہا ہے۔

اس کے حملے سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے،حماس نے جس طرح اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو شکست دی اور جس طرح اس کی ناک کے نیچے سے اسرائیل پر حملہ آور ہوا ہے اس نے اسرائیل کو بوکھلایا تو ہے ہی اس کے ساتھ ان کے دفاع کی کمزوریاں بھی سامنے آ گئی ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کو ایک کھلے زنداں میں بدل دیا ہے جس کو چاروں جانب سے بند کر کے نہ تو انھیں غزہ کی پٹی سے نکلنے دیا جا رہا ہے اور نہ ہی انھیں خوراک اور میڈیکل کی سہولیات فراہم کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے بھی ہو رہے ہیں ۔ آج مغربی دُنیا خود کو سب سے زیادہ تہذیب یافتہ اور امن کی علم بردار قرار دیتی ہے۔

امریکا اور مغربی طاقتوں کی ایما پر اقوامِ متحدہ جنگوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز بلند کرتی ہے، جب کہ یونیسیف سمیت یو این او کے دیگر ذیلی ادارے خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کے نام پر بے تحاشا رقم خرچ کرتے ہیں، لیکن فلسطین میں کم و بیش گزشتہ گیارہ ماہ سے اسرائیل کی وحشیانہ بم باری کے نتیجے میں چالیس ہزار سے زاید اموات پر، جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے، مغربی طاقتوں اور اُن سے وابستہ مذکورہ بالا اداروں کا مصلحت آمیز رویہ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ فلسطینی مسلمانوں پر وحشیانہ بم باری کے علاوہ فلسطین میں موجود اسرائیلی فوج بھی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے میں مصروف ہے۔ اسرائیلی فوجی آئے روز نہتے، معصوم مسلمانوں کے گھروں میں زبردستی داخل ہو جاتے ہیں اور گھروں میں گُھس کر توڑ پھوڑ کے علاوہ خواتین، بچوں اور بزرگوں کو زدوکوب بھی کرتے ہیں۔

معصوم لڑکوں اور نوجوانوں کو کسی جُرم کے بغیر ہی گرفتار کرلیتے ہیں اور اُن پر ہر قسم کا ظلم روا رکھا جاتا ہے۔گزشتہ برس 7 اکتوبر سے فلسطین پر شروع ہونے والی اسرائیل کی وحشیانہ بم باری آج بھی جاری ہے، جس کے نتیجے میں شہر کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چُکے ہیں اور اس وقت فلسطین میں ایک قیامتِ صغریٰ برپا ہے۔ اسرائیل کے بمبار طیاروں نے انسانیت کی تذلیل کرتے ہوئے اُن اسپتالوں کو بھی ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا کہ جہاں زخمیوں کا علاج جاری تھا۔

غزہ کی متعدد بستیاں مسمار کر دی گئی ہیں اور اس دوران معصوم بچے ملبے تلے دب گئے، جب کہ دوسری جانب اسرائیلی فورسز مظلوم فلسطینیوں کو امدادی سامان کی فراہمی میں بھی رُکاوٹیں کھڑی کررہی ہیں۔فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ وہاں کی عیسائی آبادی بھی شدید متاثر ہے اور اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں نے بھی اسرائیل کی مذمت کا آغاز کیا ہوا ہے لیکن یہودی لابی امریکا سمیت یورپی ممالک کے اقتدار کے ایوانوں پر غالب ہے اسی لیے نیتن یاہو بے لگام ہوکر مظالم میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔

سب سے زیادہ مجرمانہ رویہ مسلم حکمرانوں کا ہے جنھوں نے مسلم ممالک کو دسترخوان پر سجے کھانے کی مانند بناکر رکھ دیا ہے اور امریکا و مغربی ممالک جب چاہیں جس کھانے کو تناول کرلیں، انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر کوئی بھی مسلم حکمران یہ سمجھ کر خاموش ہے کہ اس طرح کرنے سے ان کا اقتدار اور ملک محفوظ ہوجائے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ جلد یا بدیر ایک ایک کرکے تمام مسلمان ممالک پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے امریکی منصوبہ بندی جاری ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور مسلم امہ ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر اجتماعی نمایندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے۔

اسرائیل کے ان انسانیت سوز مظالم پر پاکستان سمیت پوری دُنیا سراپا احتجاج ہے۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس سمیت دُنیا بھر سے فلسطینیوں کی حمایت میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود فیصلہ ساز عالمی قوتوں کا ضمیر مستقلاً سویا ہوا ہے۔ ہمیں عالمی قوتوں کا ضمیر جگانے اور مظلوم اہلِ فلسطین کی ہر ممکنہ مالی و اخلاقی مدد کرنی چاہیے۔