سپریم کورٹ کے اچانک حکم سے کچھ حلقے حیران ہیں جبکہ کچھ پریشان ہیں، عدالتی حکم نامے کے بعد سیاسی جوڑ توڑ میں تیزی آگئی ہے، حکومت نے عدالتی اصلاحات کیلئے آئینی ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کیلئے اپنی حکمت عملی کو آخری شکل دیدی اور بل کی منظوری کیلئے صف بندی کرلی۔
حکومتی اتحاد نے عدالتی وضاحت کو نظرانداز کر دیا، آئینی ترمیمی بل آج پیش کیے جانے کا امکان ہے ۔قومی اسمبلی کا اجلاس آج بروز اتوار صبح ساڑھے گیارہ بجے منعقد ہوگا، اجلاس کا چھ نکاتی ایجنڈا جاری کردیا گیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ن لیگ اور اتحادی جماعتوں کے ارکان کے اعزاز میں ہفتے کی شب عشائیہ دیا، وزیراعظم نے ارکان کو پارلیمنٹ میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے، حکومت کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن کو منانے کی کوشش جاری ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ہفتے کو جے یو آئی سربراہ سے ملاقات کرکے بل کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی، مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ بل کی موجودہ شکل میں حمایت نہیں کرسکتے، تحریک انصاف کے وفد نے بھی جے یو آئی سربراہ سے ملاقات کی مجوزہ آئینی ترمیم پر تبادلہ خیال کیا۔
رات گئے بلاول بھٹو زرداری میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے ساتھ جے یو آئی سربراہ کی رہائش گاہ پہنچے اور مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی، سپریم کورٹ کے حکم نامہ کے حوالے سے آئینی ماہرین کا کہنا کہ جب تک الیکشن کمیشن کی ریویو پٹیشن پر فیصلہ نہیں ہوتا وضاحت کے باوجود فیصلے پر عمل درآمد کا امکان نہیں۔حکومتی ماہرین کی رائے ہے کہ بارہ جولائی کا فیصلہ الیکشن ایکٹ کی ترمیم سے غیر موثر ہو چکا۔
تفصیلات کے مطابق حکومتی ممبران پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کیلئے وزیراعظم شہباز شریف نے ہفتہ کی شب وزیر اعظم آفس میں ن لیگ اور اتحادی جماعتوں کے ممبران پار لیمنٹ کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔
وزیراعظم نے پارلیمنٹ کو بتادیا کہ آج حکومت آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں لانے کا اراہ رکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے علاوہ ایم کیو ایم ، بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ضیا کے ممبران سینٹ اور قومی اسمبلی نے عشائیہ میں شرکت کی۔
پیپلز پارٹی نے الگ عشائیہ کا اہتمام کیا تھا۔ وزیراعظم نے ارکان کو اسلام آباد نہ چھوڑنے اور پارلیمنٹ کے اجلاس میں اپنی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم اور وزیر قانون سنیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اتحادی جماعتوں کو مجوزہ آئینی ترمیم پر اعتماد میں لیا۔
وزیر قانون نے موقف اختیار کیا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار جسے کوئی سلب نہیں کرسکتا۔ وزیر اعظم نے تمام اتحادیوں کے تعاون پر شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ شرکاء کو موجودہ ملکی سیاسی صورتحال پر اعتماد میں لیا۔ وزیرِ اعظم نے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان ملک کا سپریم ادارہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان کے تقدس کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے ملکی و عوامی مفاد میں قانون سازی ہو۔ قومی نوعیت کے معاملات کو صرف پارلیمان کے ذریعے ہی حل ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی اداروں اور غیر سیاسی شخصیات کو سیاست میں گھسیٹ کر فریق بنانے کی کوشش ہوتی رہی۔
اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں نے وزیراعظم شہباز شریف پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔اتحادیوں نے آئینی ترمیم پر مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔شرکاء کو قانون سازی کے حوالے سے ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار نے بھی بریفنگ دی۔ کابینہ کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں قانون سازی کی جائے گی۔
دریں اثناء بظاہر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی وضاحت کے بعد اعلیٰ عدالتی فیصلے (12جولائی2024)کے فیصلے پر عمل درآمد کا پابند ہے۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے الیکشن کمیشن پر واضح کر دیا کہ جب الیکشن کمیشن نے خود بیرسٹر گوہر خان کو چیئرمین اور عمر ایوب کو سیکرٹری جنرل تسلیم کیا پھر اسکے بعد پارٹی سرٹیفکیٹ پر دستخط کے معاملے کو سوالیہ بنانا درست نہیں تھا۔
ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے 18جولائی کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ جب تک الیکشن کمیشن کی ریویو پٹیشن پر فیصلہ نہیں ہوتا وضاحت کے باوجود فیصلے پر عمل درآمد کا امکان نہیں۔
اس ضمن میں پارلیمنٹ کے نئے قانون کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا جس میں الیکشن ایکٹ 2017میں ترمیم کی گئی تھی کہ آزاد امیدوار ایک مرتبہ ہی کسی پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں ۔اس قانون کے ذریعے سنی اتحاد کونسل کے 41 ارکان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کو روکا گیا۔
تاہم سپریم کورٹ کی وضاحت کے بعد 41 میں سے وہ ارکان جنہوں نے تحریک انصاف کا سرٹیفکیٹ جمع کرایا وہ پی ٹی آئی کے تصور ہونگے ۔ ماہرین نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی نظر ثانی پٹیشن پر حتمی فیصلے کے بعد ہی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن ہوگا۔
علاوہ ازیں وزیراعظم شہبازشریف جنہوں نے اپنی حکومتی رفقاء کی ٹیم کے ہمراہ جمعہ کی شب اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔ ملاقات میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی ان کے ہمراہ تھے۔
اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمان سے وزیراعظم کی ملاقات اس مرتبہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی۔ ایک طرف تو مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم پر اپنے پرانے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے انہیں باور کرایا کہ ہم حکومت کی جانب سے مذکورہ بل کو جوں کی توں شکل میں منظوری کی حمایت نہیں کرسکتے ہمارے سامنے اب تک اسکی جو تفصیلات آئی ہیں اس کے بارے میں ہمارے رہنمائوں اور زعما کو تحفظات ہیں۔تاہم اگر ہمیں ترمیم کا مسودہ فراہم کر دیا جائے تو پھر اس پر بات ہوسکتی ہے۔
دریں اثناء پی ٹی آئی کے وفد نے بھی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی۔ وفد میں بیرسٹر گوہر، عمرایوب، اسد قیصر اور صاحبزادہ حامد رضا شامل تھے۔وفد نے جے یو آئی سربراہ سے ملاقات میں مجوزہ آئینی ترمیم پر تبادلہ خیال اور اپوزیشن کے مؤقف سے آگاہ کیا۔
واضح رہے کہ آئینی ترامیم کیلئے حکومت کے پاس عددی اکثریت میں 8 اراکین کی کمی ہے اور ایسے میں اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی مولانا فضل الرحمان کی حمایت کیلئے کوشاں ہیں۔
دوسری جانب ماہرین کا مرتب کردہ آئینی ترامیم کا مسودہ ہفتے کی شام حکمران اتحاد کی قیادت کے حوالے کیا گیا، چار گھنٹے بند کمرے کے اجلاس میں مسودے کی نوک پلک درست کی گئی، آج آئینی ترمیم "ٹیبل بل" کے طور پر لایا جائیگا یہ آئین کی چھبیسویں ترمیم ہوگا، حکومتی اتحاد نے عدالتی وضاحت کو نظر انداز کر دیا۔