گزشتہ سال جب سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ نامی قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا تو شہبازشریف وزیر اعظم اور اعظم نذیر تارڑ وزیر قانون تھے۔ آج جب پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کی صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے خلاف وزری کی جارہی تو شہباز شریف وزیر اعظم اور اعظم نذیر تارڑ وزیر قانون ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء منظور ہوا تو عمر عطا بندیال چیف جسٹس تھے اور ان کی ذات میں اس وقت کی حکومت کو ایک جوڈیشل ڈکٹیٹر نظر آتا تھا۔
آج جب اس قانون کو تبدیل کرنے کیلئےصدارتی آرڈی ننس جاری کروایاگیا تو حکومت کو موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ذات میں جمہوریت کا نجات دہندہ نظر آ رہا ہے۔ اب ذرا یاد کرتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی آرڈی ننس کے اجرا کوپارلیمنٹ کی توہین کب اور کہاں قرار دیا تھا؟
27 مئی 2024ء کو قائم مقام صدر مملکت کے طور پر یوسف رضاگیلانی نے ایک صدارتی آرڈی ننس جاری کیا جس کےتحت الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ اختیار دیاگیا کہ الیکشن ٹربیونلز میں ریٹائرڈ ججوں کو بھی مقرر کیا جاسکتا ہے۔ اس آرڈی ننس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔ ابھی اس درخواست کی سماعت مکمل نہ ہوئی تھی کہ حکومت نے پارلیمنٹ سے منظوری لے کر آرڈی ننس کو ایکٹ میں تبدیل کردیا۔
دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ نے آٹھ الیکشن ٹربیونلز بنا دیئے جن میں ہائی کورٹ کے حاضر سروس ججوں کو مقرر کیا گیا۔ شائد الیکشن کمیشن کو ان حاضر سروس ججوں کی قابلیت پر کوئی شک تھا۔ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے آٹھ الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کوسپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ سپریم کورٹ میں اس مقدے کی سماعت کے دوران صدارتی آرڈی ننس کا ذکر آیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فرمایا تھا کہ صدارتی آرڈی ننس جاری کرنا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ میں ذاتی طور پر صدارتی آرڈی ننس کو مناسب نہیں سمجھتا۔
عمران خان کے دور حکومت میں صدر عارف علوی نے صدارتی آرڈی ننسوں کی بھرمار کردی تھی اور میں نے یہ گستاخانہ جملہ کہا تھا کہ ایوان صدر کو آرڈی ننس فیکٹری میں تبدیل کردیا گیا۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں صدارتی آرڈی ننس کے اجرا پر تنقید کرتی تھیں۔ عمران خان کی حکومت نے پیکا آرڈی ننس 2022ء کے ذریعے صحافیوں کی گرفتاری کیلئے ایف آئی اے کے اختیارات میں اضافہ کیا توبطور صحافی میں نے اس آرڈی ننس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کردیا تھا۔
کسی صحافی اور سیاستدان کا صدارتی آرڈی ننس پر تنقید کرنا اس کا حق ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ صدارتی آرڈی ننس جاری کرنا غیر آئینی نہیں ہے۔ آئین میں یہ گنجائش غیر معمولی حالات کے تقاضوں کے پیش نظر رکھی گئی ہے لیکن قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے صدارتی آرڈی ننس کو پارلیمنٹ کی توہین قرار دیا تو یہ سیاست میں مداخلت تھی۔
20ستمبر2024ء کو صدر آصف علی زرداری کی طرف سے جاری کئے جانے والے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈی ننس 2024ء کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہو رہا تھا اس لئے صدارتی آرڈی ننس جاری کیا گیا۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن یہ آرڈی ننس وزارت قانون نے بنا کربھیجا اور یہی وزیر قانون صاحب تھے جنہوں نے گزشتہ سال ہمیں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کی منظوری کے بعد نئے قانون کے فوائد گنوائے تھے۔ کیا یہ آرڈی ننس پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ دونوں کی توہین نہیں ہے؟ کیا اس آرڈی ننس کے ذریعے دوبارہ چیف جسٹس کو ڈکٹیٹر نہیں بنا دیاگیا؟ چیف جسٹس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ بنچوں کی تشکیل کیلئے کمیٹی میں اپنے اور ایک سینئر جج کے علاوہ تیسرا جج سنیارٹی کی بجائے اپنی صوابدید کےمطابق نامزد کرے گا۔
چیف جسٹس نے آرڈی ننس جاری ہونے کے فوری بعد جسٹس امین الدین کو کمیٹی کا رکن بنا دیا جوسنیارٹی میں پانچویں نمبر پر آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے نئے اختیارات کا کچھ ایسا استعمال کریں گے کہ پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کیلئے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
آنے والی تاریخ یہ بتائے گی کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے اختیارات ختم کرنے کیلئے ایک ایکٹ پاس کیا اور ایک سال بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اختیارات بڑھانےکیلئے صدارتی آرڈ ی ننس جار ی کرادیا ۔ وہی قاضی صاحب جو صدارتی آرڈی ننس کو پارلیمنٹ کی توہین قرار دیا کرتے تھے۔