زیبرا کراسنگ اُور علاج معالجہ

شہر کی معروف اور مصروف سڑکوں پر سے زیبرا کراسنگ کیوں غائب ہے؟ شہر میں جب سے سگنل فری کوریڈور بنائے گئے ہیں، حادثات کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔ کبھی پہلے ہر بڑی اور مصروف شاہراہ پر دونوں جانب زیبرا کراسنگ بنی ہوتی تھی، تاکہ پیدل چلنے والے باآسانی سڑک پار کرسکیں، لوگوں کو بھی علم تھا کہ زیبرا کراسنگ پہ گاڑی آہستہ کرنی ہے۔

کہیں کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ لیکن آج کسی بھی شاہراہ پر زیبرا کراسنگ نہیں ہے، کراچی بہت بڑا اور مصروف شہر ہے۔ یہاں ہزاروں لوگ پیدل چلتے ہیں اور جب انھیں سڑک کراس کرنی ہوتی ہے تو وہ چلتے ہوئے ٹریفک میں سے خود کو خطرے میں ڈال کر سڑک عبور کرتے ہیں، بائیک والے اس معاملے میں نہایت لاپروائی کا ثبوت دیتے ہیں، اگر کوئی ہاتھ کے اشارے سے انھیں روکنا چاہے تو یہ بائیک والے اپنی بائیک کی رفتار اور بڑھا دیتے ہیں، یہی حال گاڑی والوں کا ہے۔ انھیں پیدل چلنے والے نظر ہی نہیں آتے۔ میں بلدیہ عظمیٰ کراچی سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ جلدازجلد قومی شاہراہوں اور دیگر مصروف سڑکوں پر دونوں جانب زیبرا کراسنگ کی سفید پٹیاں بنوائے تاکہ پیدل چلنے والے بلا خوف و خطر سڑک عبور کر سکیں۔ اس طرح حادثوں کی شرح بھی کم ہو جائے گی۔

دوسری بات یہ کہ آج کل جو طبقہ سب سے زیادہ مال دار ہے وہ ہے ڈاکٹر، جو دو دو گھنٹے مختلف اسپتالوں اور کلینکس میں بیٹھ کر روزانہ لاکھوں کماتے ہیں۔ کسی بھی ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں ایک ہزار، پندرہ سو اور دو ہزار فی مریض فیس لے کر صرف نسخہ لکھ کر دیتے ہیں۔ کبھی نسخہ کے علاوہ دوائیں بھی ڈاکٹر کے کلینک سے ملتی تھیں۔ اب تو بس کسی کونے میں دو کرسیاں اور میز ڈال کر ڈاکٹر بیٹھ جاتے ہیں۔ جو نسخہ وہ لکھ کر دیتے ہیں وہ یا تو ان کا اپنا میڈیکل اسٹور ہوتا ہے یا پھر اس میڈیکل اسٹور سے وہ اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور ڈاکٹر جو دوائیں لکھ کر دیتے ہیں وہ صرف اسی مخصوص میڈیکل اسٹور میں ملیں گی جس کا نام ڈاکٹر صاحب نے بتایا تھا تاکہ انھیں کمیشن مل سکے۔ یہ کاروبار بہت پھیلا ہوا ہے، دوا ساز کمپنیوں کے نمایندے صبح صبح ہی ڈیوٹیوں پر نکل جاتے ہیں۔

ان کے بیگ میں مختلف دوائیں ہوتی ہیں جو وہ ڈاکٹرز کی نذر کر کے کہتے ہیں کہ اگر انھوں نے ہماری دوائیں تجویز کیں تو بیرون ملک کے سفر کے علاوہ بہت سی مراعات بھی ملیں گی۔ مرد ڈاکٹروں کی ترجیحات الگ ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ میڈیکل اسٹور والوں کا معاملہ بھی ان دوا ساز اداروں سے الگ ہوتا ہے۔ ایک ڈاکٹر جو دوائیں نسخے میں لکھ کر دے گا وہی دوائیں میڈیکل اسٹور پہ بھی ملیں گی۔ اس کے علاوہ ہر ڈاکٹر چھوٹتے ہی آپ کو مختلف ٹیسٹ لکھ کر دے گا کہ جب تک ٹیسٹوں کی رپورٹ نہیں آ جاتی وہ دوا نہیں دے سکتے اور جب ساری رپورٹ کلیئر آتی ہیں تو وہ اپنے من پسند لیب سے اپنا حصہ وصول کر لیتے ہیں۔ ٹیسٹ بھی مخصوص لیبارٹریز کا لکھ کر دیتے ہیں لیکن اب لوگوں میں خاصی آگہی اور شعور آ گیا ہے اس لیے وہ اب ان لیبارٹریز سے ٹیسٹ کرواتے ہیں جن کی رپورٹ ہر ڈاکٹر تسلیم کرتا ہے۔