جسٹس منصور کے انکار سے عدالتی درجہ حرارت میں اضافہ

جسٹس منصور علی شاہ کے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کام کرنیوالی 3 رکنی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت  سے انکار سے عدالتی درجہ حرارت میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

جسٹس منصور شاہ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق فیصلے پر نظرثانی  درخواست کی سماعت کیلیے قائم لارجر بینچ میں بیٹھنے بھی انکار کر دیا تھا، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک ہم خیال جج کو لارجر بینچ میں شامل کر لیا۔

یہ بات کوئی راز نہیں کہ چیف جسٹس قاضی فائز کے 2 سینئر ترین ججوں منصور شاہ اور جسٹس منیب اختر کیساتھ روابط مخصوص نشستوں پر 12 جولائی کے  حکم کے بعد سے کشیدہ ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترامیم سے متعلق آرڈننس کا نفاذ  سپریم کورٹ کے اندار کی صورتحال کو مزید کشیدہ بنا رہا ہے۔

آرڈننس کے خلاف درخواستیں بھی دائر ہو چکی ہیں،اس صورتحال میں چیف جسٹس ہم خیال ججوں پر انحصار کی اپنے پیشرو کے روایت پر عمل پیرا ہیں۔ ان حالات میں سب کی نظریں اکثریتی ججوں پر ہیں کہ آیا وہ خاموش رہتے ہیں یا پھر موجودہ صورتحال میں کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع کرتے ہیں، جس میں آزاد خیال ججوں پر داخلی اور خارجی عناصر کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔

یہ بھی دیکھنا ہے کہ  ججوں کی اکثریت چیف جسٹس سے فل  کورٹ اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کرے گی کہ نہیں۔ پی ٹی آئی کے وکلا آج سپریم کورٹ کے باہر ایک بڑا مظاہرہ کر رہے ہیں، جس کا عدلیہ کی سیاست پر یقیناً اثر پڑے گا۔