ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آئینی ترمیم کیلئے حکومت کے پاس 5؍ سینیٹر اور 7؍ ارکانِ اسمبلی کم ہیں۔ ایک سرکاری ذریعے کا کہنا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں ہمارے پاس حمایت کیلئے ارکان کی تعداد زیادہ کم ہے لیکن ہم دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت (میجک نمبر) کے حصول کیلئے کوشاں ہیں،
آئندہ ہفتہ بہت اہم ہے۔ دی نیوز نے پارلیمنٹ کے تین بااثر سرکاری ارکان سے بات کی لیکن ان میں سے ایک بھی آئینی ترامیم کا ہدف حاصل کرنے کے معاملے میں پر اعتماد نظر نہیں آیا۔ وہ اپنی طاقت پر انحصار کی بجائے کچھ دوسری قوتوں پر منحصر دکھائی دیے۔ ان میں سے ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ماضی میں اسی آئینی ترمیم کیلئے حکومت کے پاس حامی ارکان کی تعداد زیادہ تھی کیونکہ ماضی میں جن ارکان اسمبلی نے اس ترمیم کیلئے حکومت کو اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا وہ اب بھاگ گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سینیٹ میں حکومت کے پاس پانچ جبکہ قومی اسمبلی میں سات ارکان کی کمی ہے۔
حکمران اتحادی جماعتوں کیلئے مولانا فضل الرحمان مشکل چیلنج بن گئے ہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ محسن نقوی بھی مولانا کو حمایت کیلئے راضی نہیں کر پائے حالانکہ محسن نقوی کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اگر حکومت حامی ارکان کی مطلوبہ تعداد حاصل کر بھی لیتی ہے، تو اس صورت میں بھی وہ اس بات کی خواہشمند ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو اپنے ساکھ رکھے نہ کہ انہیں پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کیلئے چھوڑ دے۔
حکمران جماعت کے ایک سینیٹر کے مطابق آئینی ترمیم منظور کرانے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ تاہم، ایک اور اہم حکومت رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ جب ’’ریاست‘‘ کوئی فیصلہ لیتی ہے تو وہ کام ہوتا بھی ہے۔ حکومت بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل کے معاملے پر بھی کام کر رہی ہے لیکن مولانا کو حمایت کیلئے راضی کرنا بڑا کام ہے۔ عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے حکمران جماعتوں کی کوششوں کے آخری شرمناک اینٹی کلائمکس سے قبل، سرکاری ذرائع ماضی میں زیادہ پر اعتماد تھے۔ آج نون لیگ میں بھی کئی لوگوں کی نظریں بلاول بھٹو پر ہیں، جو وفاقی آئین کی عدالت کے قیام کا کیس لڑ رہے ہیں۔ تاہم بلاول تاحال مولانا فضل الرحمان کو منانے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ آرٹیکل 63؍ اے کیس میں سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے کے بعد بھی مولانا اہم ہیں۔