ہزاروں سال سے انسانی تاریخ کا رہنما اصول ایک ہی ، قوموں کے عروج و زوال کی کہانی سیاسی استحکام یا عدمِ استحکام سے نتھی ہے ۔وجود میں آتے ہی مملکت سیاسی عدمِ استحکام کی زد میں ، 70 سال سے ارتعاش مستقل و مستحکم عمل بن چکا ہے ۔
ازلی دشمن اور اندرونی مفاداتیوں نے پہلے دن سے آڑے ہاتھوں لینے کی ٹھانی ۔ اصل گھائل اندرونی مفاداتیوں نے رکھا ۔مملکت کے نظریاتی تشخص پر اندر سے کاری ضربیں لگائیں ۔ بلاشبہ ، عظیم قائد نے اپنی سیاسی زندگی کے پہلے 35 سال اسلام کا سہارا نہ لیا ، یہ بھی حقیقت کہ سیکولر ، لبرل سیاست کو قریب نہ بھٹکنے دیا ۔ روز روشن کی طرح عیاں ، جاہلوں کو بھی معلوم کہ زندگی کے آخری 10 سال عظیم قائد نے مسلمانوں کی نظریاتی مملکت کیلئے وقف رکھے۔آفرین ! " مفاداتی ٹولہ" نے چند سال اندر ہی وطنی نظریاتی تشخص کو مسخ کرنے کی ٹھانی ، شعوری یا لاشعوری ازلی دشمن کا آلہ کار بنے رہے ۔ معلوم تھا کہ نظریاتی تشخص بارے کنفیوژن مستحکم ہو گاتو مملکت میں کُھل کھیلا جائیگا۔ سیاسی استحکام کی غیرموجودگی میں نظریاتی تشخص کو مسخ کرنا آسان تھا ۔
وطن عزیز میں جب کبھی سیاسی ارتعاش اوربے یقینی کی صورتحال بنتی ہے ، عظیم قائد کی 11 اگست 1947 کی تقریر کو عام کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ عظیم قائد نے 11 اگست سے پہلے یا بعد کوئی تقریر نہ کی ۔ عظیم قائد کے 45 سالہ سیاسی سفر میں ہزاروں تقاریر ، مضامین ،مجال ہے " سیکولراِزم ، لبرل اِزم " جیسے الفاظ زبان پر آئے ہوں جبکہ آخری دس سالہ سیاسی زندگی میں درجنوں نظریاتی تشخص اُجاگر کرنے پر کیں ۔ چشم تصور میں 1947 کی قتل و غارت کو سامنے رکھیں ، کیا عظیم قائد ایسی تقریر نہ کرتے تو کیا کرتے ؟
دورائے نہیں کہ ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو نظریاتی مملکت اور دفاعِ پاکستان بارے غیر مبہم اور زودِ فہم جامع جانکاری ہے ۔ عملاً 33 سال سے اسٹیبلشمنٹ وطنی سیاہ و سپید کی مالک ، بلاشبہ وطنی سیاسی عدمِ استحکام کی بلا شرکتِ غیرے ذمہ دار ہے ۔ ستم ظریفی کہ عدمِ استحکام کی صورت میں ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنے مفادات کیلئے وطن عزیز کی بیخ کُنی کرنیوالے " مفاداتی ٹولہ " سے گٹھ جوڑ کر تی رہی ۔ مفاداتی ٹولہ دہائیوں سے زبان ، قومیت ، فرقہ واریت ، لبرل ازم کی آڑ میں نظریاتی چولیں ہلا چکا ہے ۔ کُلی ذمہ دار ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے۔
7 دہائیوں کا سفر بیتے 2 سال ہو چکے ، وطن عزیز کے تناظر میں 7 دہائیوں کاجائزہ لیناہے ۔ پہلی دو دہائیوں کا حساب کتاب بنتا نہیں ،اگلی دو دہائیاں نظریاتی پاکستان کیلئے دامے درمے سخنے وقف رکھے ۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر اسلامی نظریہ کو پروان چڑھانے کی حتی المقدور کوشش کی ۔
اسلامی جمعیت طلبہ کا بھرپور پلیٹ فارم میسر رہا ، یا مولانا مودودی رحمتہ کی تعلیمات نے اسلامی پاکستان اور قائداعظم سے محبت کو لازوال بنا ڈالا ۔ حیف ! 5 دہائیوں بعد نظریہ پر نظامِ وطن کر ترجیح دینا پڑی کہ " مستحکم نظام " جو آئین و قانون کی حکمرانی سے نتھی تھا ، ہی استحکام دیتا ۔پچھلی دہائی بدقسمت کہ جب ریاست کی جان کو لالے پڑے تو آئین و قانون سے زیادہ وطنی سالمیت کو ترجیح دے چکا ہوں ۔مجھے وطنی سالمیت کی گارنٹی چاہیے ، ذاتی طور پر تن من دھن حاضر وہاں رکھوں گا ، آئین کو نظریات کی طرح وقتی طور پر سُکھنا ڈالوں گا ۔ دس سال پہلے " سیاسی مسخروں " نے " سیاست نہیں ریاست بچاؤ " کا ڈرامہ رچایا ۔ آج ملکی سالمیت متزلزل کر چکا ہے ۔تکلیف دہ کہ سارا عرصہ پشت پناہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی تھی ۔ نتیجتاً2018 تک ! جنرل باجوہ کی قیادت میں ایک ٹرائیکا وجود میں آچکا تھا، 2022 تک مملکت کو گہری کھائی میں دھکیل گیا ۔ کہنا مشکل کہ ایسا عمل مفاداتی تھا یا باقاعدہ منصوبہ بندی کےمطابق تھا۔
2018سے وطن عزیز میں ہائی برڈ سسٹم متعارف ہے ۔ ریاست بگولے کی زد میں ، عرصہ ہوا نظریات پس پشت ڈالے ، آئین و قانون میں سہارا ڈھونڈا کہ سیاسی استحکام نصیب بنے ۔آج وطنی سالمیت خطرات کے گھیرے میں ہے ۔ 2022 میں ایک وزیراعظم نے دم رخصت مروت اور اخلاص سے مملکت کو ڈیفالٹ کی طرف دھکیلنے کیلئے ہر ہنر آزمایا کہ " میں نہیں تو پاکستان نہیں " ، ریاست برباد کرکے رکھ دی۔ جرأت جنرل باجوہ اپنے ہی ادارے پر حملہ آور ہو گیا ۔ آخری 7 مہینے ، فیض عمران کو ریاست پرچڑھا دیا ۔ جنرل فیض اسکرپٹ تیار کرتا رہا تو عمران خان جلسے جلوس ، ریلیاں ، 2 لانگ مارچ ، جیل بھرو تحریک وغیرہ وغیرہ سے اس اسکرپٹ کو عملی جامہ پہناتا رہا ۔ ادارے کیخلاف مہم جوئی کا مقصد ، لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی تعیناتی رکوائی جائے ۔
پچھلے جمعہ دو باتیں عرض کی تھیں ، SCO کے سربراہی اجلاس کو سبوتاژ کرنے کیلئے اسلام آباد پر عمرا ن خان کی چڑھائی کا پلان ناکام ہوگا ۔ علی امین گنڈاپور اسلام آباد سے ناکام لوٹیں گے ۔ علی امین گنڈاپور کی سیاست EXPOSE ہو چکی ہے ۔ رام کہانی میں دلچسپی نہیں ، اسٹیبلشمنٹ نے کمال مہارت سے اپنے مہرے استعمال کرکے انصافی احتجاجوں سے توانائی اور بھاپ نکال دی ۔
اسلام آباد احتجاج کا شاخسانہ کہ تحریک انصاف میں ورکر بمقابلہ قیادت دست و گریباں ہیں ۔ وسیع سیاسی سپورٹ کے باوجود عمران خان جیل میں بے بسی کی تصویر، کسمپرسی سے دوچار ہے ۔ عرصہ دراز سے عقیدہ ایک ہی کہ جو سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق ، وہ اسٹیبلشمنٹ کے آگے ڈھیر رہنی ہیں ۔ تحریک انصاف کی جتنی قیادت جیل سے باہر ہے آج باجماعت اسٹیبلشمنٹ کے رحم وکرم پر ، اسکے اشارہ ابرو کی محتاج ہے ۔بتایا تھا ،علی امین گنڈاپور کا امتحان کڑا ، " اے غم زندگی کچھ تو دے مشورہ ،میں کہاں جاؤں ہوتا نہیں فیصلہ " ، ایک طرف کور کمانڈر پشاور کا گھر اور ایک طرف چیئرمین کا میکدہ ۔ علی امین گنڈاپور کو کس نے اسلام آباد کا محفوظ راستہ دیا ۔ علی امین D چوک نہ سہی ، چائنہ چوک کو ہاتھ لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی ناکام کوشش ضرور کی ۔
اصل کام آئینی ترامیم رکوانا ، اگلا میدانِ جنگ یہی کہ آئینی ترامیم کو کامیاب کروانا ہے ۔ SCO اجلاس کیوجہ سے شاید فوری ممکن نہیں ، قوی امکان کہ فوراً بعد ہو جانی ہیں ۔ دیر سویر میں ویسے25 اکتوبر کی میجک تاریخ کے بعد بھی ہو جائیں گی ۔ منصور علی شاہ چیف جسٹس بن بھی گئے تو اسٹیبلشمنٹ کے عزم صمیم اور مصمم ارادوں کے آگے بے بس رہیں گے ۔ بندیال کے بینچ اور شاہ صاحب بمع 7 ججز کے فیصلہ پر عدم عدولی کی نشاندہی ضروری ہے ۔ دورائے نہیں ، وطنی سیاسی استحکام کا انحصار جنرل عاصم منیر پر ہے ۔ ایک بات ذہن نشین کرنی ہوگی ، اللّٰہ تعالیٰ نے جس طریقہ سے ٹرائیکا اور بیرونی طاقتوں کی سازشوں کو اب تک ناکام بنایا ، شاید کوئی معجزہ ہی تھا ۔ وطنی سالمیت کا انحصار بھی اس معجزہ پر ہے۔ وطن باقی ! تو نظریہ اور نظام باقی، باقی رہے نام اللّٰہ کا