مڈل ایسٹ آئی میں لکھتے ہوئے نامور برطانوی صحافی پیٹر اوبرن جو عموماً عوام سے متضاد خیالات رکھنے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، کہا کہ، ’50 سال پہلے آکسفورڈ کے کیبل کالج میں سیاست اور معاشیات کے طالب علم کے طور پر عمران خان نے آزادی اور انصاف کی اہم اقدار کے حوالے سے جو کچھ سیکھا اس کی جھلک‘ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں نظر آتی ہے۔ تاہم بہت سے حلقوں کے خیال میں بےشک کچھ معاملات میں آکسفورڈ کی کوتاہیاں سامنے آتی ہیں لیکن اس کی اقدار کو پی ٹی آئی سے مماثل قرار دینا یونیورسٹی کی توہین ہے۔
یہی عنصر ٹائمز آف اسرائیل کی بلاگر آئینور بشیرووا کی تحریر میں بھی جھلکا جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ’عمران خان اسٹیٹس کو کو چیلنج کرنے کی کوشش کرچکے ہیں بالخصوص تعلیمی اصلاحات اور خواتین کے حقوق جیسے شعبہ جات میں‘۔ پاکستان میں حقوقِ نسواں کی سرگرم کارکنان اور ماہرین تعلیم شاید ان کے اس بیان سے متفق نہ ہوں۔
آئینور بشیرووا نے یہ تبصرہ شاید عمران خان کی اپنے سابقہ سسرال گولڈ اسمتھ خاندان کے ذریعے اسرائیل میں رسائی کے حوالے سے بھی ہو۔ لیکن دوسری جانب صحافی پیٹر اوبرن نے غزہ کے حوالے سے عمران خان کے بیان کی پذیرائی کی جبکہ ان کے برعکس آکسفورڈ کی چانسلر شپ کے دیگر امیدوار جیسے برطانوی کنزرویٹو پارٹی کے رہنما ولیم ہیگ اور لیبر پارٹی کے وزیر پیٹر میڈلسن نے غزہ المیے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
پیٹر اوبرن کے اس بیان کو دی آبزرور کی کیتھرین بینیٹ نے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی نامزدگی ’یونیورسٹی کی سابقہ اور موجودہ طالبات‘ کے لیے ہتک آمیز ہوگی اور اسے ’طالبان اور ان کے مہربانوں‘ کے لیے تحفہ قرار دیا جبکہ حال ہی میں کپل کومریدی نے بھی پیٹر ابرون کے خیالات کو چیلنج کیا۔
گزشتہ ہفتے ڈیلی ٹیلی گراف کے لیے لکھے گئے اپنے کالم میں کپل کامریدی نے پوچھا کہ کیا آکسفورڈ کا عملہ یا اس کے سابق طلبہ ’یونیورسٹی کو دہائیوں پرانی تاریکی سے نکال کر ایک جامع ادارہ بنانے کے لیے ایک ایسے امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں جس نے طالبان دور کی واپسی کی تعریف کی اور انہیں ’خدا کاکرم‘ قرار دیا؟‘ انہوں نے عمران خان کے دیگر عیوب پر بھی تبصرہ کیا جیسے نتیجہ خیز امریکی انتخابات میں پاکستانی-امریکی پبلک افیئرز کمیٹی میں عمران خان کے سپورٹرز فاشزم کے حامی شخص کی حمایت کررہے ہیں۔
مغرب میں بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے بہت سے حلقے عمران خان کو ایک ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں جوکہ سامراجیت کے خلاف لڑ رہا ہے جبکہ وہ اس پہلو کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ اس سیاسی کھیل میں انہوں نے اپنے کتنے ساتھیوں اور سہولت کاروں کو ناراض کیا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ عمران خان کے غیرواضح اور فرسودہ نظریے سے اتفاق کیے بغیر بھی وہ ان کے ساتھ ہونے والے سلوک اور کارروائیوں کے خلاف کھڑے ہوسکتے ہیں۔
یونیورسٹی کے اصولوں کے برخلاف ہونے کے باوجود عمران خان کی چانسلر شپ کے امیدوار کے طور پر نامزدگی کی مہم نے توجہ حاصل کی، اس نے جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد کو متوجہ کیا ہے کہ وہ بھی چانسلرشپ کے لیے نامزدگی جمع کروائیں حالانکہ ان کا آکسفورڈ سے ماضی میں کوئی تعلق نہیں رہا یا انہیں اس کا بھی واضح طور پر شعور نہیں کہ چانسلر کے طور پر اس رسمی کردار کی کیا ذمہ داری ہوگی جبکہ اس عہدے پر بیٹھے شخص کو کوئی معاوضہ بھی ادا نہیں کیا جاتا۔
یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیے گئے 38 امیدواروں کے بیانات میں لاہور کی وکیل سدرہ آفتاب ’حقائق کو سمجھنے اور مشکل وقت سے نمٹنے کی اپنی صلاحیت‘ پر فخر کرتی ہیں۔ ایک اور ماہرِ قانونی انور بیگ خود کو ’اس کام کے لیے موزوں شخص‘ قرار دیتے ہیں۔ کاشف بلال نے ’برطانیہ اور دنیا میں شرحِ خواندگی کو بڑھانے‘ کا عہد کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل آفتاب احمد جاوید شیخ نے اپنی زندگی کے ’متحرک تجربات‘ کی بنیاد پر اس عہدے پر اپنی اہلیت کا دعویٰ کیا ہے۔ کشمالہ رؤف ایمیزون ٹیم لیڈر کے طور پر اپنے تجربے کو اپنی قابلیت سمجھتی ہیں۔ ابرار الحسن شاپو اپنے عزائم کو ’دیانتداری اور یونیورسٹی کی فلاح و بہبود کے ساتھ کام کرنے‘ کا عہد کیا ہے۔ تانیا تاجک کہتی ہیں کہ ان کا زومبا کا تجربہ ’چانسلر کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے میں میری مدد کرے گا‘۔
سابق سیاستدان (جو متوقع طور پر یہ عہدہ سنبھالیں گے) جیسے کنزرویٹو پارٹی کے رہنما ولیم ہیگ، ڈومینک گریو جو ولیم کے ساتھ کام کرچکے ہیں (جن کی حمایت کرنے کے لیے مجھ سے بھی رابطہ کیا گیا) اور لیبر پارٹی کے رہنما پیٹر میڈلسن نمایاں نام ہیں۔ اگر ماضی کو دیکھا جائے تو ان تینوں میں سے کوئی ایک موجودہ چانسلر کرس پیٹن کی ریٹائرمنٹ کے بعد چانسلر شپ کے عہدے پر براجمان ہوگا۔
کوئی شخص جس کے اصول کچھ مختلف ہوں گے، میں اس کی حمایت کرسکتا ہوں۔ میں ابھی تک غیریقینی کی کیفیت میں مبتلا ہوں کہ اگلے ہفتے ہونے والے انتخاب میں کس امیدوار کو ووٹ دوں۔ لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ عمران خان کا نام اس فہرست میں نہ ہونے سے اب یہ اہم نہیں رہا کہ یہ بے معنی انتخاب کون جیتتا ہے۔