26 ویں آئینی ترمیم کی کہانی

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن اور تحریک انصاف کے درمیان کچھ چیزیں طے ہوئی تھیں۔ مولانا نے پی ٹی آئی سے کہا تھا کہ سینیٹ میں حکومت کو ہمارے ووٹوں کی ضرورت ہے اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ووٹوں کی ضرورت ہو گی۔ لہٰذا سینیٹ میں ہم ووٹ نہیں دیں گے اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی والے ووٹ نہیں دیں گے تو یہ بل پاس نہیں ہو گا۔ 

مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف سے کہا کہ سینیٹ کو میں سنبھالتا ہوں اور قومی اسمبلی کو آپ سنبھالیں اور آپ کا کوئی بھی ممبر نہ ٹوٹے، تحریک انصاف کو یہ باور تھا کہ اس کا سینیٹ میں کوئی بھی بندہ ٹوٹ نہیں سکتا اور قومی اسمبلی میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور سب سے کہا کہ وہ کے پی کے چلے جائیں اور اپنے فیملی ممبرز کو بھی سائیڈ پر کر لیں۔ ان کو یہ باقاعدہ ہدایت ملی تھی، مگر مسئلہ یہ ہو اکہ جب پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں کیلئے منڈی لگ گئی تو وہ بھیڑ بکریوں کی طرح بک گئے تو وہاں مولانا کیا کرتے؟ 

اب یہ قصہ الٹ ہو گیا اور تحریک انصاف کے کچھ سینیٹر اور اسکے علاوہ 11سے 15قومی اسمبلی کے ممبران بھی بک چکے ہیں تو پھر دونوں نے مل کر جو مولانا کا مسودہ تھا وہ مولانا کا نہیں بلکہ وہ پاکستان تحریک انصاف کا مسودہ تھا۔ تحریک انصاف حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھتی اور نہ ہی ان کے ساتھ وہ ڈائیلاگ کی سوچ رکھتی تھی۔

 نہ انہوں نے ان کے ساتھ کوئی ڈائیلاگ کیا، وجہ یہ تھی کہ خان صاحب کا حکم تھا کہ حکومت کو ہم نہیں مانتے ہیں کیونکہ یہ فارم 47کی پیداوار ہے۔ یہ ناجائز حکومت ہے تو ہم ان کے ساتھ نہیں بیٹھتے، مولانا کو اس لئے استعمال کیا کہ وہ یہ ساری چیزیں دیکھیں۔ کیونکہ مولانا کے پاس اگر مسلم لیگ (ن) والے اور پیپلز پارٹی والے آتے تھے، تو فوراً پی ٹی آئی والے چلے جاتے تھے۔ 

اصل میں مولانا اور پی ٹی آئی والے آپس میں مشورہ کرتے تھے، مگر جب حالات یہاں پہنچ گئے کہ تحریک انصاف کے سینیٹر اور قومی اسمبلی کے ممبر بک گئےتو انہوں نے پلان ہی تبدیل کر دیا۔ پہلے یہ تھا کہ یہ بل پاس ہی نہیں ہو گا، تو پھر پلاننگ میں یہ بات طے ہوئی کہ اس میں جو خطرناک چیزیں ہیں کوشش کریں کہ ان کو نکالا جائے۔ ایک تو یہ کہ سویلین کا ملٹری کورٹ میں مقدمہ نہیں چلے گا، یہ تحریک انصاف کامطالبہ تھا اور خان صاحب اور انکے ورکرز کو بچانے کیلئے تھا۔

 دوسرا یہ کہ آئینی عدالت نہیں بنے گی اور آئینی عدالت نہیں بنی، آئینی عدالت اور آئینی بینچ میں فرق ہوتا ہے۔ تیسرا یہ تھا کہ اب قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہ دی جائے۔ یہ 3چیزیں اہم تھیں انہوں نے ان کو بل سے نکال دیا۔ باقی یہ کہ اگر سپریم کورٹ میں کسی کی اتھارٹی تھی کوئی سپریم کورٹ کا جج بن رہا ہے یا مستقبل میں بنے گا تو تحریک انصاف یا تحریک انصاف کے ورکرز نے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا سارے پاکستان کا ،پاکستان میں اور بھی لوگ ہیں اور اگر کسی کی اتھارٹی چیلنج ہوئی ہے تو وہ اپنا کردار ادا کرے۔ تحریک انصاف والے کال دیتے ہیں تو وکیل نہیں نکلتے، نہ تاجر برادری، نہ انجینئر، نہ کسان باہر نکلتے ہیں حالانکہ سب لوگ پریشان ہیں۔ صر ف تحریک انصاف کے ورکر اور لیڈر ہیں جو مار کھاتے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو بہت کم ایسا ہوا ہے کہ سب سے پہلے کوئی بھی بل سینیٹ سے پاس کیا گیا ہو، حالانکہ پہلے بل قومی اسمبلی سے پاس ہوتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ جب شکوک و شبہات میں ہوتے ہیں تو آپ سوچتے ہیں کہ اگر میں اسٹیپ لے لوں کہ قومی اسمبلی سے پاس کرالوں اور بعد میں سینیٹ میں ناکامی ہو تو بے عزتی بھی ہوگی اور بل بھی پاس نہیں ہو گا۔

 ٹیکنیکل اور آئینی بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جہاں تک چیف جسٹس کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کرنے کی بات ہے یہ تحریک انصاف کی پالیسی میں بھی شامل تھا۔ عمران خا ن جب وزیر اعظم تھے تو وہ بھی اسی طرح کا قانون لانا چاہتے تھے لیکن اس وقت انکے پاس 2تہائی اکثریت نہیں تھی، مگر خواہش تھی کہ اگر مجھے 2تہائی اکثریت دے دی گئی تو میں چیف جسٹس کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کر دوں گا۔ وہ طریقہ تھوڑا اس سے مختلف تھا۔

 تحریک انصاف چاہتی تھی کہ 3ججز کا ڈیٹا لے کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان پر ڈیبیٹ کی جائے، ان کا ماضی دیکھا جائے، ان کا کردار بحیثیت سپریم کورٹ جج دیکھا جائے کہ سپریم کورٹ میں ان کاکردارکیسا تھا اور کتنے فیصلے ٹھیک اور کتنے غلط تھے۔ ان ساری چیزو ں پر ڈیبیٹ ہونا تھی اور اس کے بعد ان3ججوں میں سے ایک کا نام قومی اسمبلی سے منظور ہونا تھا اور وزیر اعظم نے اس کو انڈورس کرنا تھا اور صدر نے اس پر دستخط کرنے تھے۔

اب جبکہ چیف جسٹس کا تقر ر ہو چکا ہے تواب میں تھوڑا سا نیوٹرل ہو کر تجزیہ کروں گا۔ 1998 میں نواز شریف نے نیب کا ادارہ بنایا تو نواز شریف اور زرداری دونوں اس میں پھنس گئے۔ ثاقب نثار مسلم لیگ (ن) کے لیگل ایڈوائزر تھے جب چیف جسٹس بنے تو انہوں نے ان کے ساتھ کیا کیا۔ عبدالحمید ڈوگر کو چیف جسٹس پی پی پی نے بنایا تو اس نے ان کے ساتھ کیا کیا، یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔

 بہر حال نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایک بڑا اچھا فیصلہ کیا اور حلف اٹھاتے ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیل نو کر دی۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو بطور رکن دوبارہ کمیٹی میں شامل کر دیا اور سپریم کورٹ کے تمام کورٹ روم کو لائیو اسٹریمنگ سروس فراہم کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔