سپریم کورٹ کا پہلا آئینی بنچ، جو 14 نومبر سے مقدمات کی سماعت شروع کر رہا ہے، کو سب سے بڑے جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں خاص طور پر ایگزیکٹو یا دیگر ریاستی اداروں کے اثر و رسوخ کے بغیر عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنا شامل ہے۔
مارچ 2009 سے عدالت عظمیٰ نے ملکی سیاست کی تشکیل میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل سپریم کورٹ کے ججوں کو بیرونی طاقتوں کی طرف سے کوئی بڑا چیلنج درپیش نہیں تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان ادارے کے سربراہ ہونے کے ناطے عدالت کا ایجنڈا ترتیب دے رہے تھے جس نے ملک میں جمہوریت کو مزید کمزور کردیا تھا۔ ماضی میں سپریم کورٹ اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات خوشگوار رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑی سیاسی جماعتیں خاص طور پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جوڈیشل ایکٹوازم کا شکار رہیں۔ جس وقت ان چیف جسٹسز نے پسندیدہ نتائج حاصل کرنے کے لیے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال شروع کردیا تو عدلیہ کے اندر تقسیم شروع ہوگئی ۔
ماضی قریب میں تو ججوں نے ایک دوسرے کے خلاف ہوکر بیرونی اداروں کی مدد شروع کردی۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں سپریم کورٹ کو دو کیمپوں میں تقسیم کردیا گیا تو اس کا ایگزیکٹو نے فائدہ اٹھایا اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے ذریعے چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات کو ریگولیٹ کردیا۔
جس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ستمبر 2023 میں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تو یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اب اعلیٰ عدلیہ متحد ہوجائے گی۔ تاہم ایسا نہیں ہوسکا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے دور میں سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان اور بھی شدید اختلافات سامنے آگئے۔ آخر کار چیف جسٹس قاضی فائز اور ان کے ہم خیال ججوں نے حکومت کو 26 ویں آئینی ترمیم لانے میں سہولت فراہم کی۔
انہوں نے سپریم کورٹ کے اس سابق فیصلے کو پلٹ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63اے کے تحت منحرف قانون ساز کے ووٹ کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ اسی بنا پر حکومت آئینی ترمیم منظور کرانے میں کامیاب رہی۔
اب پہلا آئینی بنچ آئینی مقدمات کی سماعت اس وقت شروع کر رہام ہے جب عدلیہ پر ایگزیکٹو کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔ وکلا کا کہنا ہے کہ آئینی بنچ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہائی پروفائل کیسز میں اپنی غیرجانبداری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آئینی بنچ کی پہلی سماعت لائیو سٹریمنگ کے ذریعے عوام کو دکھائی جائے گی یا نہیں۔
عبدالمعیز جعفری ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ فی الحال وہ توقع رکھتے ہیں کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی ہدایت اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس میں عدالت کے فیصلوں کے مطابق ایسے اہم معاملات جن کے لیے پانچ آئینی ججوں کی ضرورت ہوتی ہے کو لائیو نشر کیا جائے گا۔ حکومت چاہتی ہے کہ آئینی بنچ کو 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف پٹیشنز کو سننا چاہیے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آئینی بنچ فل کورٹ بنانے کے لیے اس معاملے کو چیف جسٹس کی طرف ریفر کرتا ہے یا نہیں۔