نو مئی واقعات پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران فوج تعیناتی کے حکومتی اختیار کو ان ڈکلیئرڈ مارشل لا کہنے پر سپریم کورٹ آئینی بینچ نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک آئینی اختیار کو ان ڈکلیئرڈ مارشل لاء کیسے کہہ سکتے ہیں۔
آئینی بینچ نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست کو نمبر لگانے کی ہدایت کی۔ سماعت کے آغاز پر وکیل حامد خان نے کہا کہ ملک میں ان ڈکلیئرڈ مارشل لاء ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں آرٹیکل 245 کے تحت سول حکومت کی معاونت کے لیے فوج کی تعیناتی کی بات کی، یہ تو آئین میں لکھا ہوا ہے کہ آرٹیکل 245 کے تحت سول حکومت فوج کی معاونت لے سکتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کو آرٹیکل 245 کے تحت آئینی اختیار کو چیلنج کرنا پڑے گا، آپ ایک آئینی اختیار کو ان ڈکلیئرڈ مارشل لاء کیسے کہہ سکتے ہیں اور آرٹیکل 245 کے اختیار پر سوال کیسے اٹھایا جا سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ ابھی تک یہ بھی نہیں بتا پائے آرٹیکل 245 کا غلط استعمال کیسے ہوا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست مفاد عامہ کے تحت کیسے ہے، اس سوال پر ابھی دلائل ہونا باقی ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ابھی صرف رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کر رہے ہیں، ابھی میرٹس پر کیس نہیں سنا۔ جسٹس امین الدین خان نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو سنیں گے، لگتا ہے یہاں سب کو جلدی ہے۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ نو مئی کے بانی پی ٹی آئی سمیت سیکڑوں افراد پر کیسز درج کیے گئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایف آئی آر تو قانونی معاملہ ہے اس کا فیصلہ عدالتیں کرتی ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر کمیشن بن بھی گیا تو صرف ذمہ داری ہی فکس کرے گا، جوڈیشل کمیشن رپورٹ کا فوجداری مقدمات پر اثر نہیں پڑے گا۔
عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔