شام: داخلی بغاوت سے کیا ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آتا ہے؟

عرب ملک شام میں گزشتہ نصف صدی سے اسد خاندان کی آمرانہ حکومت بالآخر اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ شامی صدر بشارالاسد کی حامی قوتیں باغیوں کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے میں ناکام رہیں۔

صدر بشار الاسد اپنی آخری کوشش میں ناکامی کے بعد دارالحکومت دمشق سے نکل کر اپنے سرپرست روس جانے پر مجبور ہوگئے جہاں انھیں سیاسی پناہ دے دی گئی۔ صدر اسد کو بظاہر روس، ایران، حماس اور حزب اللہ کی ہمدردیاں حاصل تھیں جب کہ باغیوں کو اسرائیل، امریکا اور ترکیہ کی حمایت حاصل رہی۔

جنگجوؤں کے رہنما کمانڈر احمد الشرع، جن کا حقیقی نام ابو محمد الجولانی بتایا جاتا ہے۔ دمشق فتح کرنے کے بعد شامی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ بشارالاسد نے شام کو ایرانی عزائم کے لیے ایک فارم بنا کر چھوڑ دیا تھا، انھوں نے فرقہ واریت کو پھیلایا۔‘‘ مبصرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ شام میں 80 فیصد سے زائد آبادی شافعی مسلک کے ماننے والوں کی ہے، تاہم وہاں نصف صدی سے اسد خاندان برسر اقتدار تھا جو ایرانی حکومت کا مسلکی قرابت دار تھا۔ بشار الاسد کے دور حکومت میں مسلک کی بنیاد پر فرقہ واریت کو فروغ حاصل ہوا جس کا دائرہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وسیع سے وسیع تر ہو کر سرحدوں سے پار تک پھیلنے لگا۔

 آمریت خواہ کسی شکل میں ہو وہ عوام کے قلوب کو ہمیشہ کے لیے فتح نہیں کر سکتی۔ آپ دنیا کے مختلف خطوں میں بالخصوص مشرق وسطیٰ میں گزشتہ نصف صدی میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ آمریت کی ظلم و زیادتی برداشت کرنے کی قوت جب جواب دینے لگتی ہے تو عوام کے قلوب میں دبی چنگاریاں شعلہ بن جاتی ہیں۔

ایک ایسے ماحول میں جب بیرونی اور اندرونی ذرائع سے پھر تعاون اورکمک بھی پہنچنے لگے تو آمریت کے مضبوط قلعے بھی عوامی بغاوت کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ آپ ایران میں رضا شاہ پہلوی کی آمریت سے لے کر عراق تک اور لیبیا سے لے کر اب شام تک ایک طویل عرصے تک طاقت کا ایک ہی مرکز رہا لیکن اندر ہی اندر لاوا بھی پکتا رہا اور باغی قوتیں اسے ہوا دیتی رہیں۔ اسی طرح امریکا، روس، اسرائیل اور دیگر حامی ممالک اپنے اپنے حمایت یافتہ گروپوں کی نہ صرف یہ کہ سرپرستی کرتے رہے بلکہ مطلوبہ ’’کمک‘‘ بھی پہنچاتے رہے نتیجتاً عشروں پر محیط اقتدارکا خاتمہ ہوگیا۔آمر ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔

 یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ داخلی بغاوت سے کیا ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آتا ہے؟ کیا باغی قوتیں اپنے سرپرستوں کی آشیرباد سے ملک کے طبقوں کو مطمئن کر کے مستحکم حکومت قائم کرسکتی ہیں؟ کیا ملک میں مکمل امن قائم ہو سکتا ہے؟ افسوس کہ ایسے سوالوں کا جواب ’ہاں‘ میں دینا آسان نہیں۔ ہمارے سامنے عراق اور لیبیا کی شکل میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ آمریت کے خاتمے کے بعد بھی ملک میں انتشار، افراتفری اور عدم استحکام کی صورت حال جاری رہی۔ عوام کوکلی طور پر سکون نہ ملا۔

کیا شام میں حافظ الاسد کے بیٹے بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیاسی استحکام قائم ہو سکے گا؟ کیا باغی گروپ عوام کے اعتماد پر پورا اتر سکیں گے۔ کیا ان کے سرپرست امریکا، اسرائیل، ترکیہ، شام میں تبدیلی کے بعد اپنے مقاصد حاصل کرسکیں گے؟ صورت حال ہرگز حوصلہ افزا نہیں بلکہ پریشان کن ہے بجا کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے اسد حکومت کے خاتمے کو شامیوں کے لیے ملک کی تعمیر نو کا ’’ تاریخی موقعہ‘‘ قرار دیا ہے، نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اسد حکومت کے خاتمے پر اطمینان کا اظہارکیا ہے جب کہ اسرائیل نے جولان کی پہاڑیوں پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے لیے تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے ہیں۔

گزشتہ دنوں اسرائیل نے شامی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کیا اور کم و بیش تین سو اہداف کو نشانہ بنایا۔ محمد البشیر جنھیں شام کا فی الحال نگران وزیر اعظم بنایا گیا ہے نے اسرائیلی حملوں کی سخت مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل سے شام پر حملے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بعینہ قطر، عراق، ترکیہ اور سعودی عرب نے بھی جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کی پرزور الفاظ میں مذمت کی ہے۔

 کہا جا رہا ہے کہ روسی صدر پیوٹن یوکرین جنگ میں مصروفیت کے باعث شامی باغیوں کے خلاف موثرکارروائی نہ کر سکے اور ان کے حلیف شامی صدر بشارالاسد کو اپنے تخت و تاج سے ہاتھ دھونا پڑے۔ شام ایک عشرے کی خانہ جنگی کے باعث پہلے ہی تباہ حال ہوچکا ہے، ہزاروں لوگوں نے ملک چھوڑ دیا۔ اب باغیوں کی فتح اور اسد خاندان کے گھر دمشق میں برپا ہونے والی افراتفری سے کیا ملک شام میں استحکام آ سکے گا؟ یا افراتفری، انتشار، خانہ جنگی اورکشت و خون جو ایک عشرے سے شامیوں کا مقدر بنی ہوئی ہے مزید طول پکڑے گی، ان سوالوں کا جواب آنے والا وقت دے گا۔