الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت کے دوران ویڈیو لنک کے ذریعے عدم حاضری پر جیل حکام سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 15 جنوری تک ملتوی کردی۔
ممبر سندھ نثاردرانی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت کی۔
وکیل نے بتایا کہ عمران خان کی ویڈیو لنک سے حاضری کا حکم دیا تھا، میرا خیال ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک پر نہیں آنے دیا جائے گا۔
ممبر سندھ نثار درانی نے الیکشن حکام سے استفسار کیا کہ کیا ویڈیولنک سے حاضری کا بندوبست ہوا، جس پر الیکشن کمیشن حکام نے بتایا کہ ہماری طرف سے انتظامات مکمل ہیں، جیل کی طرف سے ویڈیو لنک ایکٹیو نہیں ہوا، ہمارا اسٹاف وہاں موجود ہے، جیمرز کی وجہ سے رابطہ نہیں ہورہا، جیل حکام بالکل تعاون نہیں کر رہے۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ اگر ویڈیو لنک سے حاضری نہیں ہوتی تو کمیشن بانی پی ٹی آئی عمران خان کو یہاں طلب کرے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کوئی تکنیکی مسئلہ ہو سکتا ہے، پیش نہ کرنا دانستہ نہیں لگتا، ملزم کی حاضری کے بغیر شواہد ریکارڈ نہیں ہوسکتے۔
فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ جیل حکام کے عدم تعاون پر بھی توہین کا کیس بنتا ہے، کمیشن اب جانے دے، کیس کو ڈراپ کر دیں، جس پر ممبر سندھ نے کہا کہ آپ تو کیس لڑ رہے ہیں ہم کیسے ڈراپ کر دیں۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے جیل حکام سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 15 جنوری تک ملتوی کردی۔
کیس کا پس منظر
اگست 2022 میں الیکشن کمیش نے عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو مختلف جلسوں، پریس کانفرنسز اور متعدد انٹرویوز کے دوران الزمات عائد کرنے پر الیکشن کمیشن کی توہین اور ساتھ ہی عمران خان کو توہین چیف الیکشن کمشنر کا نوٹس بھی جاری کیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے نوٹس میں عمران خان کے مختلف بیانات، تقاریر، پریس کانفرنسز کے دوران اپنے خلاف عائد ہونے والے بے بنیاد الزامات اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف استعمال ہونے والے الفاظ، غلط بیانات و من گھڑت الزامات کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کو 30 اگست کو اپنے جواب کے ساتھ کمیشن میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا تھا۔
ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ کمیشن نے عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو توہین الیکشن کمیشن کے نوٹسز جاری کیے ہیں اور کہا گیا ہے کہ 30 اگست کو ذاتی حیثیت یا بذریعہ وکیل پیش ہوں۔
نوٹس میں کہا گیا تھا کہ پیمرا کے ریکارڈ کے مطابق عمران خان نے 11 مئی، 16 مئی، 29 جون، 19، 20 جولائی اور 7 اگست کو اپنی تقاریر، پریس کانفرنسز اور بیانات میں الیکشن کمیشن کے خلاف مضحکہ خیز اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کی، توہین آمیز بیانات دیے اور بے بنیاد الزامات عائد کیے جو براہ راست مرکزی ٹی وی چینلز پر نشر ہوئے۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو مخاطب کرکے نوٹس میں مزید کہا تھا کہ آپ نے 12 جولائی کو بھکر میں ہونے والے جلسے میں خطاب کیا جو ’اے آر وائی‘ پر نشر ہوا اور ساتھ ہی اگلے دن روزنامہ ’ڈان‘ میں شائع ہوا، جس میں آپ نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف توہین آمیز باتیں کیں اور ان پر من گھڑت الزامات عائد کیے۔
وزیراعظم کا ہرجانے کا دعویٰ، عمران خان کی درخواست ناقابل سماعت قرار
لاہور ہائیکورٹ نے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ہرجانے کے دعوے سے متعلق کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس چوہدری محمد اقبال نے عمران خان کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنادیا، عدالت نے سابق وزیراعظم کے گواہوں کو تحریری گواہی کی اجازت دینے کے خلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ہائی کورٹ میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کے خلاف ہرجانے کے دعوے کے کیس میں عمران خان کی ٹرائل کورٹ میں گواہوں کو تحریری گواہی دینے کی اجازت کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
عمران خان کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے ہتک عزت کے دعوے میں گواہوں کو تحریری صورت میں گواہی دینے کی اجازت دی ہے، ٹرائل کورٹ کا یہ فیصلہ حقائق کے برعکس ہے۔ گواہ کمرہ عدالت میں پیش ہوکر گواہی دیں۔
عمران خان کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے تاہم عدالت نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے دیا۔