مہنگائی کا بوجھ: سبسڈی دی جائے

تحریر راجہ محمد خان عباسی

ایک ایسے وقت میں، جب مختلف حکومتی حلقوں کی جانب سے مہنگائی میں کمی کو اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اور کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح، تقریباً 3 سال بعد سنگل ڈیجٹ پر آگئی ہے اور اس حوالے سے حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر اعداد و شمار بھی جاری کیئے گئے ہیں۔ لیکن اعداد وشمار کے گورکھ دھندے سے ہٹ کر بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاست کی 95 فیصد آبادی پر مشتمل عوام کو اس کمی سے کتنا فائدہ پہنچا؟ چونکہ عام عوام کی پہلی ضرورت سستا کھانا پینا ہے لہذا یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا موجودہ حکومت ان تین سالوں میں اشیائے خورونوش سستی کرنے میں کامیاب رہی؟

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ مہنگائی کی شرح مسلسل بلند رہی ہے، اور عوام کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ حکومت وقت نے عام پاکستانی کی ماہانہ اجرت کم از کم 36 ہزار روپے مقرر تو کر رکھی ہے۔ لیکن کئی کمپنیاں اور پرائیویٹ ادارے تو اپنے ملازمین کو اب بھی کم تنخوائیں دے رہے ہیں۔ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ ہر شخص کو حکومت کی جانب سے مقرر کردہ تنخواہ ہی مل رہی ہے تو پھر بھی تن تنہا اکیلا آدمی اس مشکل صورتحال میں اتنی رقم سے گھر کے اخراجات سے کیسے نمٹ سکتا ہے؟ اور اگر یہ تنخواہ کمانے والا شادی شدہ ہے اور اسکے بچے بھی ہیں تو ایسا ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے اخراجات کو پورا کر سکے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ چار افراد کا گھرانا صرف 36 ہزار روپے آمدن میں آدھا مہینہ بھی نہیں گذار سکتا۔ جب یہ صورت حال ہو تو حکومت وقت یہ کیسے دعوی کر سکتی ہے کہ مہنگائی کم ہو گئی ہے؟ دراصل مہنگائی تو اس وقت کم ہو گی جب پاکستان کی 95 فیصد آبادی اپنے اخراجات باآسانی پورا کر سکےگی جبکہ باقی 5 فیصد کی اگر بات کریں تو اس میں وہ اشرافیہ آتی ہے جو مہنگائی سے بالکل بھی متاثر نہیں ہوتی کیونکہ ان کی آمدن ناصرف تمام اخراجات باآسانی پورے کر لیتی ہے، چاہے وہ ماہانہ خرچے لاکھوں اور کروڑوں روپے تک ہی کیوں نہ پہنچ جائیں، بلکہ وہ اس مشکل ترین مہنگائی کے دور میں بھی عیاش پسند اور آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہے جو اس وقت ہمارے اوپر زبردستی طور پر مسلط ہیں، اور اس سب کے اصل زمہ دار بھی یہی لوگ ہیں۔ جن کی وجہ سے آج ایک عام پاکستانی خودکشی تک کرنے پر مجبور ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے اس جنت نظیر وطن عزیز میں اشیائے خورونوش پڑوسی ممالک کی نسبت اتنی زیادہ مہنگی کیوں ہیں اور اس اعجوبے نے کیونکر جنم لیا؟ تو پہلی وجہ یہ ہے یہ ہے کہ تیل وگیس اور دیگر ایندھنوں کی قیمت بڑھنا ہے۔ ایندھن کی قیمت بڑھنے سے بجلی بھی مہنگی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں بیشتر بجلی ایندھن سے ہی بنتی ہے۔ لہذا تیل، گیس اور بجلی مہنگی ہونے سے عام استعمال کی بیشتر اشیا کی پیداواری لاگت میں اضافے اور ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بڑھنے کے باعث یہ اشیاء  زیادہ مہنگی ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے پچھلے کچھ سالوں میں پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کے بلوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ جبکہ دوسری جانب بے روزگاری کے مسائل گزشتہ چند سالوں میں بدتر ہو چکے ہیں، اور ان کا اثر ملکی معیشت اور عوام کی روزمرہ زندگی پر نمایاں طور پر پڑتا نظر آ رہا ہے۔ ان مسائل کا ایک اہم پہلو ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بندش ہے، جو کہ ملک کی ایک اہم اقتصادی شعبہ رہی ہے اور لاکھوں افراد کی روزگار کا ذریعہ تھی۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بحران اور اس سے جڑے ہوئے مسائل معاشی استحکام کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ جب تک معیشت مستحکم نہیں ہوتی، روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں، اور اس کا اثر سب سے زیادہ نوجوانوں اور متوسط طبقے پر پڑ رہا ہے۔ بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور لوگ روزگار کے لیے ملک سے باہر جانے پر مجبور ہیں۔ یہ بھی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے کہ حکومت روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہو رہی ہے، جس سے معاشرتی اور اقتصادی بحران مزید گہرا ہو رہا ہے اور عام آدمی میں خریدنے کی سکت کم ہو کر رہ گئی ہے۔  اسی طرح میرے نزدیک ہمارے ملک میں مہنگائی بڑھنے کی ایک اہم وجہ حکمران طبقہ خود بھی ہے، جو اپنے اخراجات میں کئی گنا تک اضافہ کر چکا ہے۔

حالیہ قومی بجٹ کے مطابق یہ خرچ تقریباً 19 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ جبکہ بجٹ کا تقریباً آدھا حصہ تو قرضوں کے سود کی آدائیگی یا پھر قرضے اتارنے پر ہی لگ جاتا ہے۔ مثال کے طور پہ 2008ء کے بجٹ میں عوام پر 1250 ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے تھے۔ دس سال بعد 2018ء میں یہ رقم'' 5 ہزار ارب روپے'' کر دی گی۔ اور چھ سال بعد یعنی اب کی بار یہ عدد تقریبا''ً 13 ہزار ارب روپے'' تک جا پہنچا ہے۔ اب تو موجودہ عیاش حکمران طبقہ "آئی ایم ایف" کی آڑ میں ، تیل و گیس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ اور ٹیکسوں کی شرح بھی بڑھا رہا ہے۔ یا پھر نئے نئے ٹیکس ایجاد کر لیے جاتے ہیں۔ یوں غربت کی چکی میں پسی عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے اور ظلم تو یہ ہے کہ پاکستانی عوام پر بیشتر ٹیکس ان ڈائرکٹ ہیں، یعنی یہ ٹیکس امیر و غریب، دونوں کو ایک ہی شرح کے مطابق دینا پڑتے ہیں یعنی پاکستان کا ٹیکس نظام امیر اور غریب کے درمیان بالکل بھی فرق نہیں کرتا اور الیکشنز میں عوام سے قربت اور درد رکھنے کے بلند و بالا دعوے کرنے والے کسی نام نہاد لیڈرز کو آج تک یہ ہمت اور توفیق نہیں ہوئی کہ اس استحصالی ٹیکس نظام کے خلاف آواز تک اٹھا سکے جبکہ دوسری جانب یہ حکمران طبقہ اپنی مراعات کی مد میں سالانہ اربوں روپے خرچ کرتا ہے حالانکہ اس کی تنخوائیں اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ خود بھی ان خرچوں کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں، مگر نہیں، اس کا خمیازہ تو صرف اس غریب پاکستانی کو ہی بھگتنا ہے جو پہلے ہی اس مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ اگر حکمران طبقہ اپنی ان مراعات کو ختم کردےاور اس رقم سے غریب عوام کے لیے فلاحی منصوبے شروع کیےجائیں مثلاً اس رقم سے خاص طور پر رورل ایریاز کی آبادیوں کی آمدورفت میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے سڑکیں بنائی جائیں۔ اسی طرح سیوریج لائن کا نظام بھی بچھایا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو صاف و شفاف پانی مہیا ہو سکتا ہے۔ نئے اسکول اور اسپتال کھولے جا سکتے ہیں۔ جبکہ پہلے سے موجود سکولوں اور اسپتالوں کی حالت زار کو کہیں درجے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ غرض کئی طرح کے عوام دوست منصوبے اس سے باآسانی مکمل کیئے جاسکتے ہیں جس سے عام پاکستانی کی زندگی میں بڑی بہتری آسکتی ہے۔ ایسا صرف اسی صورت میں ہی ممکن ہے کہ جب یہ لوگ اپنی ذاتی خواہشات پوری کرنے کی بجائے عوام کی مشکلات کا درد اور احساس کریں

حکومت کو چاہئے کہ وہ تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے فوری طور پر عوام کے لئے اشیاء خوردونوش اور دیگر بنیادی شعبوں میں سبسڈیز دے تاکہ ان پر سے مہنگائی کا بوجھ کچھ تو کم ہو سکے۔