حکومت اور پی ٹی آئی کے نمائندوں کے درمیان ایک اعلیٰ سطح کا بیک چینل رابطہ ہوا ہے۔
ایک باخبر ذریعے نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ اجلاس میں حکومت کے دو اہم نمائندوں (جن میں ایک وزیر اور ایک دوسری شخصیت شامل تھی) نے شرکت کی جبکہ تحریک انصاف کی نمائندگی پارٹی کے ایک اہم رہنما نے کی۔
بدھ کی رات ہونے والی ملاقات کے نتائج کے حوالے سے ذریعے نے بتایا ہے کہ تحریک انصاف کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ پارٹی شورش اور کشیدگی کی سیاست جاری رکھنا چاہتی ہے یا واقعی مفاہمت چاہتی ہے۔
ذریعے کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی اپنی شورش، تشدد، فوج اور اس کی اعلیٰ کمان پر تنقید اور معیشت کو نقصان پہنچانے کی پالیسی جاری رکھتی ہے تو ایسی صورت میں اِن بیک چینل رابطوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ تاہم، اگر وہ مفاہمت کا انتخاب کرتی ہے تو اسے پالیسی میں واضح تبدیلی اور گزشتہ برسوں کی سیاست سے دوری اختیار کرنا پڑے گی۔
ذریعے کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ فیصلہ عمران خان کو کرنا ہوگا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ عمران خان کو علم ہے کہ یہ بیک چینل رابطے کتنے اہم ہیں۔
ذریعے کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی سیاسی اسپیس چاہتی ہے اور معمول کی سیاست کی طرف لوٹنا چاہتی ہے تو اسے فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ محاذ آرائی روکنا ہوگی اور ایسی کوئی سیاست نہیں کرنا ہوگی جس سے ملکی معیشت کو نقصان ہو۔
ذریعے کے مطابق ان بیک چینل مذاکرات کا مستقبل اور ان کی کامیابی کا انحصار پی ٹی آئی کی جانب سے اعتماد سازی کے ضروری اقدامات پر ہے۔ گزشتہ ڈھائی سال کی پالیسی سے علیحدگی کے واضح آثار پی ٹی آئی کو بہت ضروری سیاسی اسپیس حاصل کرنے میں مدد کریں گے۔ اعتماد سازی کے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ پورے کرنے کی صورت میں تحریک انصاف کو بھی بہتر تبدیلی نظر آئے گی۔
ذریعے کا اصرار تھا کہ ممکن ہے یہ تبدیلی فوراً نہ ہو لیکن یہ بتدریج اور پائیدار ہوگی۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ شورش کی سیاست، فوج پر تنقید اور معیشت کو نقصان جاری رکھنے کی صورت میں پی ٹی آئی کو مزید مشکلات کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ دریں اثناء پی ٹی آئی کے دوسرے درجے کی قیادت کو یہ بھی احساس ہے کہ پارٹی کو اپنی صفوں میں موجود سخت گیر عناصر کو کنٹرول کرنا ہوگا کیونکہ اس وقت مذاکرات و مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے۔
کچھ رہنماؤں کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی کو علم ہے کہ مفاہمت اور مذاکرات کی پالیسی پر عمل کی صورت میں تحریک انصاف کی مشکلات فوراً ختم نہیں ہوں گی بلکہ حالات بہتری کی جانب تبدیل ہونا شروع ہوں گے۔
پارٹی کے کئی رہنما متفق ہیں کہ فوج پر تنقید اور معیشت کو نقصان پہنچانے سے پارٹی یا اس کے بانی چیئرمین عمران خان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
پارٹی کی جانب سے گلوکار سلمان احمد کو تحریک انصاف سے نکالے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے ان میں سے ایک رہنما نے کہا کہ ایسے تمام عناصر کو پارٹی سے نکال دینا چاہیے۔ سخت گیر عناصر نے پارٹی ہائی جیک کرکے اسے محاذ آرائی کی ڈگر پر ڈال دیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے حال ہی میں واضح کیا ہے کہ اس کا تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان جاری پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں۔
اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ ایک ذریعے نے لوگوں کی جانب سے دیے جانے والے یا لوگوں کی طرف سے سمجھے جانے والے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ گویا پس پردہ یہ رابطے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اقدام کا نتیجہ ہیں یا پھر ادارے اور تحریک انصاف کے درمیان کوئی رابطہ ہے۔