ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا، فوجی عدالتوں کے کیس میں بنیادی سوال آئینی ہے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ وزارت دفاع ایگزیکٹو ادارہ ہے، آئین کے مطابق ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا، فوجی عدالتوں کے کیس میں بنیادی سوال آئینی ہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت شروع ہوگئی۔

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں آئینی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا کہ فوج کے ماتحت سویلنزکا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والا کون ہے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

اس پر جسٹس جمال نے پوچھا کہ کیا وزارت دفاع ایگزیکٹو ادارہ ہے، ایگزیکٹو کیخلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کرسکتا ہے؟، آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے، آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا، فوجی عدالتوں کے کیس میں بنیادی آئینی سوال ہے۔

وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ کوئی اور فورم دستیاب نہ ہو تو ایگزیکٹو فیصلہ کرسکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کا فورم موجود ہے، قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹو خود کیسے جج بن سکتا ہے؟

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آپ کی بات درست ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 8(3) فوج کے ڈسپلن اور کارکردگی کے حوالے سے ہے، کیا فوجداری معاملے کو آرٹیکل8(3) میں شامل کیا جا سکتا ہے؟، آئین میں شہریوں کا نہیں پاکستان کے شہریوں کا ذکر ہے۔

وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ افواج پاکستان کے لوگ بھی اتنے ہی شہری ہیں، جتنے دوسرے شہری۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سوال ہی یہی ہے کہ فوج کے لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔

بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کےخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔