اکادمی ادبیات پاکستان نے پشاور میں دو روزہ صوبائی کانفرنس کا اہتمام کیا کیاکہ پھولوں کے شہر میں جیسے ادبی بہار چھا گئی یہ کانفرنس اپریل کے آخری دو دنوں میں ہوئی اور دو دن بعد ہی یعنی تین اور چار مئی کو جواں فکر عبدالرحمن نے یوتھ ڈائریکٹوریٹ خیبر پختونخوا کے تعاون اور اپنی متحرک اور پر جوش ٹیم کے ساتھ نشتر ہال میں دو روزہ ادبی میلہ (پشاور لٹریری فیسٹول) کے دوسرے باب کا ڈول ڈالا گزشتہ برس پہلے ادبی میلے میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملاتھا اور نوجوانوں کی محبت بھری پر جوش حاضری نے اس مفروضہ کو غلط ثابت کر دیا تھا کہ نئی نسل ادب‘ثقافت یا کتاب سے دور ہو گئی ہے۔ اس دو روزہ ادبی میلہ کے فوراََ بعد اسلامی جمیعت طلبا نے حسب سابق جامعہ پشاور کے پیوٹا ہال میں 14 ویں سالانہ تین روزہ کتاب میلہ کا آغاز کر دیا گویا ہفتہ دس دن میں پشاور اور گردو پیش کے باسی ادبی بہار کے معطر حصار میں سرشار رہے‘اکادمی ادبیات پاکستان کی دو روزہ صوبائی کانفرنس کی بازگشت ابھی تک پرنٹ اور سوشل میڈیا کو مرتعش کئے ہوئے ہے ڈاکٹر نجیبہ عارف جب سے اکادمی ادبیات پاکستان کی چئیر پرسن بنی ہیں اسلام آباد اور صوبائی مراکز میں ادبی سرگرمیاں ایک تواتر کے ساتھ ترتیب پانے لگی ہیں معاصر تناظر میں صوبوں کے ادب پر مکالمہ ایک عمدہ‘ اہم اور بروقت پیش رفت ہے سندھ کے بعد خیبر پختونخوا میں کامیاب کانفرنس کے دور رس نتائج جلد ہی تخلیقی ادب میں نظر آنا شروع ہوجائیں گے پشاور میں دوست عزیز ڈاکٹرگلزار جلال اکادمی ادبیات کے پشاور چیپٹر کے اعزازی ناظم ہیں اور اس صوبائی کانفرنس کو کامیاب بنانے میں انہوں نے ڈاکٹر نجیبہ عارف کا بھر پور ساتھ دیا‘ کانفرنس کے مختلف سیشنز کے لئے ذیلی موضوعات اور ان پر کما حقہ گفتگو کے لئے شعرا ادبا اور دانشوروں کا انتخاب بھی بہت عمدہ تھا‘ صوبائی کانفرنس ہونے کے ناتے اس میں زیادہ فوکس صوبے کے علاقائی ادب و ثقافت پر تھا اور یوں پشتو‘ہندکو اور کہوار زبانوں کے ادبا اور دانشوروں کو اپنی بات پہنچانے کے لئے ایک عمدہ اور بڑا پلیٹ فارم مہیا کیا گیا“ہر چند میں اس میلہ کا حصہ نہیں تھا تاہم ڈاکٹرگلزار جلال کی محبت کہ مجھ سے مسلسل رابطہ میں تھے اور جہاں جہاں ضرورت تھی مجھ سے شرکا کے انتخاب کی داد بھی لیتے رہے اسی طرح سید ماجد شاہ اور میر نواز سولنگی نے بھی فون پر رابطہ کیا بلکہ ڈاکٹر نجیبہ عارف کی محبتوں کا بھی مقروض ہوں انہوں نے بھی فیس بک پر میرے ایک کمنٹ کے جواب میں ”ٓ آپ کی کمی محسوس ہو گی“ لکھ کرگویا میری حاضری لگا دی اور مجھے اس بات کی بھی بہت خوشی ہوئی کہ اتنے بڑے ادبی میلہ کے ہنگامہ میں دوست ِ مہرباں معروف شاعر وکالم و سفرنامہ نگار اور صوفی دانشورڈاکٹر فصیح الدین کو میں یاد رہا اور مجھے وٹس ایپ پر میسج کیا کہ آپ اس میلے میں کیوں نظر نہیں آ رہے؟ ان کا خیال تھا شاید میں پشاور واپس آ گیا ہوں‘یوں میں پشاور میں نہ ہوتے ہوئے بھی اس کانفرنس میں شریک رہا پھر مجھے اس بات کی بھی خوشی ہوئی کہ کانفرنس کے پہلے اجلاس میں گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ”رائٹرز ہاؤس“ کا افتتاح بھی کر لیا‘ یہ قصہ بھی سن لیجئے بہت کم لوگوں کو یہ علم ہو گا کہ پشاور میں رائٹرز ہاؤس کا یہ خواب دوست ِ عزیز اکادمی ادبیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور حیران کن کہانی کار اور ناول نگار مظہرالاسلام کا تھا لگ بھگ تین دہائیاں پہلے ان کا ایک دن فون آیا کہ پشاور آ رہا ہوں شام کو پنج ستاری ہوٹل میں ملیں گے تب ولی خیال مہمند پشاور مرکزکے ناظم تھے مظہرالاسلام ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ پشاور کے چند معتبر اور مستندشعرا اور ادبا کا وفد اس وقت کے چیف سیکریٹری اور انگریزی زبان کے شاعر اعجاز رحیم سے ملنے لے
کر جانا ہے ایجنڈا یہ ہے کہ اگر وہ پشاور میں کوئی جگہ مہیا کر سکیں جہاں ہم اکادمی ادبیات پاکستان پشاور کے زیر اہتمام رائٹرز ہاؤس قائم کر سکیں‘ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر کہیں پر زمین دلا دیں اکادمی اس پر خود رائٹرز ہاؤس تعمیر کر لے گی‘بیس کے قریب اہم اور سینئرز قلمکاروں کی نئی فہرست ترتیب دی گئی‘ دوسرے دن ان زعما سے رابطے کئے‘ اورشام کو حلقہ ارباب ذوق پشاور کی تنقیدی نشست میں بھی مظہر الاسلام کو میں لے گیا ان دنوں میں حلقہ کا سیکریٹری تھا اور ہمارے اجلاس پریس کلب میں ہوا کرتے تھے‘مظہرالسلام کو اس نشست میں احباب کی گفتگو اتنی اچھی لگی کہ مجھے کہا کیا یہ ممکن ہے کہ تنقید کے لئے افسانہ پیش کیا جائے مگر افسانہ نگار خود موجود نہ ہو میں نے مسکرا کر کہا جب کوئی افسانہ یا غزل پیش کی جاتی ہے تو اس کا تخلیق کار بظاہر تو محفل میں موجود ہوتا ہے مگر پھر بھی نہیں ہوتا کیونکہ اسے بولنے کی اجازت نہیں ہوتی‘ کہنے لگے پھر میرا افسانہ رکھ لیں‘ یوں پشاورحلقہ میں مظہر السلام کا افسانہ تنقید کے لئے پیش ہوا جس کی روداد بعد میں انھیں میں نے بھیج دی تھی یادش بخیر 90 کی دہائی کے اوائل میں مرحوم جوہر میرؔ کو بھی ایک دن میں حلقہ کے ایک تنقیدی اجلاس میں لے آیا تھا وہ تو اتنے متاثر
ہوئے کہ نیویارک واپس جا کر نہ صرف اپنا بہت ہی عمدہ افسانہ ”مخدومی نہیں آیا“ مجھے بھیجا کہ حلقہ کی تنقیدی نشست میں پیش کیا جائے بلکہ جلد ہی انہوں نے معروف کالم و تجزیہ نگار اور دانشور عتیق احمد صدیقی کے ساتھ مل کر حلقہ ارباب ذوق نیو یارک کی بنیاد رکھی جو اب تک قائم ہے‘لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم‘بات رائٹرز ہاؤس کی ہو رہی تھی‘خیر وہ بیل تو فوری طور پر منڈھے نہ چڑھ سکی مگر پھر یوں ہوا کہ نشتر ہال کی ایک تقریب میں دوست مہربان گورنر خیبر پختونخواسید افتخار حسین شاہ مہمان خصوصی تھے میں حسب معمول نظامت کر رہا تھا کہ مجھے ہال میں موجود پروفیسر خاطر غزنوی نے کہا کہ مجھے روسٹرم پر بلا لیں میں نے دعوت دی تو انہوں نے گورنر خیبر پختونخوا کو مخاطب کر کے کہا کہ پشاور کے قلم قبیلے کے لئے ایک رائٹرز ہاؤس کا قیام بہت ضروری ہے اور خاصی جذباتی تقریر کی‘میں نے بھی اپنی نظامت میں ان کی بھرپور تائید کی‘ پھر دن گزرتے گئے کچھ ہی عرصہ بعد مجھے کلچر ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے فون آیا کہ کل گورنر صاحب سے چار ادبی زعما کی ملاقات ہے جن میں آپ بھی شامل ہیں خیر یہ کہانی پھر سہی تاہم سید افتخار حسین شاہ نے رائٹرز ہاؤس کے لئے جگہ کا انتظام بھی کر لیا ہمیں خود وزٹ بھی کرا لیا لیکن پھر نیلے پیلے سرخ فیتوں نے اپنا رنگ دکھا دیا لیکن چلیے الحمدللہ کہ بالآخر پشاور قلم قبیلہ کا یہ دیرینہ خواب ڈاکٹر نجیبہ عارف کے دور میں خیبر پختونخوا کے ایک گورنر ہی کے ہاتھوں اپنی تعبیر سے ہم کنار ہوا‘ مجھے معلوم نہیں کہ کانفرنس کے دوران اکادمی کی اس شاندار عمارت کا ذکر کرتے ہوئے کسی نے درویش صفت ادبی شخصیت معروف و مقبول شاعر و ڈرامہ نگار ڈاکٹر محمد اعظم اعظم کو بھی یاد کیا یا نہیں جس نے اس زمیں کے حصول سے لے کر بلڈنگ کی بنیاد رکھنے اور دفتر بنانے لئے گرمی سردی سے بے نیاز مسلسل کئی مہ و سال دفاتر کے چکر لگائے‘زعما سے ملاقاتیں کیں ذاتی اثر رسوخ استعمال کیا اور جانے کیا کیا پا پڑ بیلے جس کا پھل اس شاندار عمارت کی صورت میں ہمیں ملا بہر حال جاتی ہوئی فصل گل میں پھولوں کے شہر میں ادبی بہار نے بھی اب کے خوب خوب رنگ جمایا پشاور کے قلم قبیلہ نے دل و جان سے اسے خیر مقدم کہا بلکہ حلقہ ارباب ذوق کے سیکریٹری ڈاکٹر فضل کبیر اور کتاب کہانی کے مدارالمہام انجینئر عتیق الرحمن نے اپنے معمول کے اجلاس اس کانفرنس کی وجہ سے ملتوی اور مؤخر کر دئیے‘ پشاور کا دبستان پھلتا پھولتا رہے شام دوستاں آباد رہے تاہم کیا ہی اچھا ہو کہ اس طرح کے ادبی میلے سجانے والے ایسے دنوں کا انتخاب کریں جس سے شہر میں جاری معمول کی ادبی نشستیں کسی طور متاثر نہ ہوں۔ میر انیس یاد آگئے۔
خیالِ خاطرِ احباب چاہئے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو