جب اگلے سال یہی وقت آرہا ہو گا

رمضان المبار ک کا رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ اپنے اختتام پر عید الفطر کی بابرکت ساعتوں کا انعام سونپ گیا، اسلامی ممالک اور پاکستان بھرمیں افطار سے ذرا پہلے بازاروں کی رونقیں جس طر ح دیدنی ہوتی ہیں اور عشا اور تراویح کے وقت مساجد میں نمازیوں کا جوش خروش جس طور قابل دید ہوتا ہے باہر کی دنیا میں یہ رونقیں اْس طرح تو دیکھنے میں نہیں آتیں تاہم جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ان علاقوں کے بازار تو نہیں لیکن مساجد بہت آباد اورپرونق ہو جاتی ہیں انگلینڈ کے کئی ایک شہروں میں مسلمان کثیر تعداد میں آباد ہیں ان میں زیادہ تر پاکستانی ہیں اس لئے کئی ایک شہروں کو یا پھر ان کے مخصوص علاقوں کو ”منی پاکستان“ کہا جاتا ہے ان میں یو کے کا لندن کے بعد دوسرا بڑا شہر برمنگھم بھی شامل ہے جہاں پاکستانی کثیر تعداد میں آباد ہیں اور ان میں میر پورسے تعلق رکھنے والے پاکستانی تو تجارت سمیت بیشتر شعبوں پر چھائے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے رمضان کریم کے پورے مہینے میں اور پھر چاند رات کو برمنگھم کے کچھ خاص علاقوں میں سر شام خرید و فروخت کے ہنگامے پشاور کے بازاروں سے بھی بڑھ کر نظر آتے ہیں چاند رات کو تو دکانوں کے باہر چوڑیوں اور مہندی لگانے کے سٹالز کی رونقیں تو پشاور کے مینا بازار کا سا منظر پیش کرتی ہیں، ابھی ستائیسویں رمضان کو میرے نوشہرہ کالج کے دنوں کے سٹوڈنٹ سجاد حسین اور عابد حسین نے مجھے اور ابتسام کی فیملی کو افطار ڈنر کی دعوت دی تھی میں جب بھی برمنگھم جاتا ہوں تو ان سے ملاقاتوں میں نوشہرہ کالج کے کئی اساتذہ اور طلبہ کا ذکر ہو تا ہے سجاد حسین کو نہ صرف سب اساتذہ اوردوست یاد ہیں بلکہ بہت سوں سے رابطہ میں بھی ہے،دیر تک محفل جمی رہی اور جب وہاں سے نکلے تو رفعت علی سید اور ثمرین بٹیا کو یاد آیا کہ کچھ ضرور ی شاپنگ کرنا ہے میں نے کہا کہ انگلینڈ کے بازار تو سر شام ہی بند ہو جاتے ہیں اور اب تو بہت دیر ہو گئی ہے مگر ابتسام علی سید نے کہا پا پا رمضان المبارک میں بعض بازاروں میں بہت سے مال کھلے رہتے ہیں جب ہم پہنچے تو نہ صرف دکانیں اور مال کھلے تھے بلکہ خریدار بھی اچھی بھلی تعداد میں مو جود تھے، پاکستانیوں نے انگلینڈ کے باسیوں کا مزاج ہی بدل کر رکھ دیا ہے پشاور میں کبھی کے پر رونق میلے اب ایک عرصہ سے ختم ہو چکے ہیں لیکن یو کے کے کئی شہروں میں عید میلے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں گزشتہ برس لوٹن شہر کے عید میلے کی رونقیں دیکھ کر مجھے بچپن اورلڑکپن کے زمانے کے عیدمیلے اور پشاور کا ساٹھ کی دہائی کا مقبول میلہ ’جشن خیبر‘ یاد آ گیا تھااس بار بھی لوٹن ٹاؤن کے روایتی عید میلے کے لئے ابتسام اور برخوردار آفان کی فیمیلز کو لوٹن میں رہنے والے ان کے محبتی دوست آصف فضل نے مدعو کیا ہوا ہے لیکن مجھے اور رفعت علی سیّد کو تو عید سے دو دن پہلے لندن سے یو ایس کے لئے فلائٹ لینا تھی اس لئے ہم ستائیس مارچ کی صبح گیارہ بجے ہیتھرو ائیر پورٹ سے دس گھنٹے کی نان سٹاپ پرواز کے ذریعے ستائیس مارچ ہی کی سہ پہر ڈھائی بجے ڈینور پہنچ گئے، لندن کا آسمان گہرے کالے بادلوں سے بھرا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود یہ ایک بہت ہی ہموار پرواز تھی ڈینور ائیرپورٹ پر ا فراز علی سیّداپنی بچیوں عمارہ اور اریبہ کے ساتھ منتظر تھے دادا اور دادی کو دیکھ کر بچوں کی خوشی اور جوش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں زندگی کے لئے بہت معنی رکھتی ہیں اور زندگی کو خوبصورت بناتی ہیں اس ائیر پورٹ سے نکلتے ہی ایک عجیب سی کشادگی کا احساس ہو تا ہے اور دور تا حد نظر کھلے میدان دیکھ کر لمبے سانس لینے کو جی کرتاہے خصوصاََ جب آپ یو کے سے آتے ہیں جو ہر چند اپنے وسیع سبزہ زاروں اور چراگاہوں کے لئے مشہور ہے لیکن اس کے شہر وں کے بازار وں سے لے گھر گلیاروں تک ہر جگہ ایک تنگی کا احساس ہو تا ہے اس کے برعکس امریکہ کی بہت سی ریاستیں اور خاص طور پر کو لو راڈو میں ہر طرف دور دور تک پھیلے ہوئے میدان سرشار کر دیتے ہیں ڈینور کے رہائشی علاقے اور بازار بھی اس طرح پھیلے ہوئے ہیں اس لئے قریب ترین مارکیٹ تک جانے لئے آپ کو پندرہ بیس منٹ سے زیادہ کی ڈرائیودرکار ہو تی ہے اتنا یا اس سے زیادہ فاصلہ مساجد کا بھی ہے، لیکن گزشتہ کچھ برسوں میں نئی آبادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اب کے بھی گھر کی طرف آتے ہوئے مجھے افرازؔ نے کئی جگہ پر بننے والے کئی منزلہ فلیٹس دکھائے جو میری ڈینور سے چھے مہینے کی دوری کے دوران تیزی سے بنے ہیں، یو ایس کے دوسرے کچھ شہروں کی نسبت ڈینور میں پاکستانی برادری بہت کم ہے تا ہم کئی مساجد ہیں ان میں سے ایک پر رونق مسجد کے مہتمم افراز علی سیّد بھی ہیں جواس نے اپنے دو تین دوستوں کے ساتھ مل کر بنائی ہے جمعہ کے دن یہاں دو بار نماز ادا کی جاتی ہے اور ہر بار مرد اور خواتین نمازیوں کی بہت بڑی تعداد اکٹھی ہوجا تی ہے، رمضان المبارک میں تراویح اور تروایح میں ختم القرآن کا خصوصی اہتمام بھی اس مسجد میں کیا جاتا ہے اس بار مجھے بھی آخری تراویح اسی مسجد میں پڑھنے کا موقع ملا جو ختم القرآن کی شب تھی یوں ختم القرآن کی د عا میں بھی شریک ہو گیا،رمضان کے مہینے میں کئی بار عموماً اور ویک اینڈ پر خصوصاًمسجد انتظامیہ کی طرف سے افطار ڈنر کا بند بست کیا جاتا ہے، اس بار متوقع طور پر آخری تراویح اور ختم القرآن کی مناسبت سے ایک بڑے افطار ڈنر کا انتظام افراز علی سیّد نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر کیا تھاکم و بیش پونے دوسو کے لگ بھگ خواتین اور مرد شریک تھے‘ افطار ڈنر اور ڈیزرٹ (سویٹس) کی ان گنت ڈشز کے ساتھ ساتھ چائے قہوہ اور کشمیری چائے بھی تھی، تراویح کے بعد بھی چائے اور ڈیزرٹ کا دوسرا دور بھی چلا، چار گھنٹے مسجد میں گزارنے کے باوجود کسی کو جلدی نہ تھی، میرے لئے بہت اطمینان،خوشی اور سرشاری کی ساعتیں تھیں ہر دوست کے ہونٹوں پر افراز کے حسن انتظام کا ذکر تھا ایک چھوٹا سا ایونٹ کچھ تحائف اور اسناد کا بھی تھا جو ان بچوں کے لئے تھا جنہوں نے رمضان کے مہینے کے دوران مسلسل مسجد آ کر افطار ڈنرمیں دستر خوان بچھانے سے لے کر ڈنر پروسنے تک مسجد انتظامیہ کا ہاتھ بٹایا تھا مجھے اچھا لگا کہ ان خدمت گزار بچوں میں سیدہ عمارہ اور سیدہ اریبہ کا نام بھی تھا جو اس شب بھی پیش پیش تھیں، مجھے یہ بھی اچھا لگا کہ دوران تراویح چار رکعت کی امامت ایک ننھے حافظ ِ قرآن نے کی اور اس اعتماد سے کی کہ دل خوش کر دیا مجھے افراز نے بتایا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ ہر سال رمضان میں مستند حفاظ کے ساتھ ساتھ ایک کم سن حافظ قرآن کو بھی تراویح پڑھانے کا موقع دیں گے تاکہ ان کو بھی اعتماد ملے اور دوسرے بچوں میں بھی یہ شوق پیدا ہو۔ امریکہ پہنچنے کے فوراً بعد اس بابرکت محفل میں شریک ہو کر قلب و جان کو ایک عجب طمانیت کا احساس ہوا‘ رمضان کامقدس مہینہ بہت سی خوشیاں اورسر شاریاں بخش کر رخصت ہوا ایسی رحمتیں اور برکتیں اپنے جلو میں لے کر جب اگلے سال رمضان کا مہینہ آئے گا تو کون جانے کن خوش نصیبوں کو یہ برکتیں پھر سے سمیٹنے کا موقع مل پائے گا۔ ریاض مجید یاد آگئے۔
 جب اگلے سال یہی وقت آرہا ہو گا
 یہ کون جانتا ہے کون کس جگہ ہو گا