یہ لوگ توڑ ہی دیں گے تمہارے سارے خواب

 گزشتہ دنوں  جب پشاور کے گرد و نواح میں باد و باراں‘کا  ایک پھیرا لگا تھا تو اسی  دن بادلوں کے چند ٹکڑے پشاور کے آسمان پر بھی نظر آئے تھے لیکن ان کے چھاگل پانی سے خالی تھے یہ ماگھ کا مہینہ ہے جو دھند اور سخت سردی کا موسم ہوا کرتا ہے مگربارش نہ ہونے کے سبب حدّت کا  عالم  یہ ہے کہ  ز یادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھا نہیں جا سکتا  پشاور کے مزاج میں مل بیٹھنے کی جو ایک تہذیبی روایت کبھی رچی بسی تھی وہ گزرتے وقت کی  نت نئی مصروفیات کی وجہ سے رفتہ رفتہ قصّہ پارینہ بن گئی ہے، جب سے پشاور کے گھروں میں بیٹھک نے ڈرائنگ روم کا چولا پہن لیا ہے مانو دلوں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں دوستوں کو بلانا تو ایک طرف اب اپنے گھر میں خود اپنے آپ کو بھی گزشتہ کل کی طرح کی آزادی میسر نہیں ہے بنارس کے ایک ہندی شاعر  دھومل نے اپنی کویتا میں کیا عمدہ کہا ہے کہ ”میں نے محسوس کیا ہے کہ (اب) گھر چھوٹی چھوٹی آسائشوں کی ایسی دین ہے جس کے اندر جوتے پہن کر ٹہلنا منع ہے“ یہ بات ماضی بعید کی نہیں ابھی کچھ مہ و سال پہلے تک پشاور میں دوستوں کا روزکا اکٹھ ایک معمول کی سرگرمی تھی اور بہر ملاقات کسی بڑی تقریب کی ضرورت نہیں ہوتی تھی جب ذرا کان بے سرے ہو ئے ڈاکٹر اسماعیلؔ قمر کو فون کر لیا کہ سنا ہے آپ نے نیا سوٹ خریدا ہے وہ لاکھ کہتے نہیں نہیں،گزشتہ سال خریدا تھا  تب ہم کہتے ’یار بہت افسوس ہے سال ہو گیا اور آپ نے بتایا ہی نہیں اب ہم کل مبارک باد دینے آپ کے گھر آ رہے ہیں‘ اور یوں ہم پانچ چھے دوست ان کے گھر پہنچ جاتے جہا ں پر تکلف طعام اور موسیقی کا اہتمام ہمار ا منتظر ہوتا اور پھریہی مشق میرے گھر میں بھی دہرائی جاتی میرے گھر کی محفل موسیقی میں یو ں تو ہر مہینے بپا ہوتی اور  اسماعیل قمر کے ساتھ ساتھ سعید پارس بھی آواز کا جادو جگانے آجاتے لیکن ہر سال جنوری کی پچیسویں تاریخ کوایک بڑی تقریب ہوتی کیوں کہ پہلے پہل  افراز علی سیّد کی اور پھر بعد میں ابتسام علی سیّد کی بھی سالگرہ کی  یہی تاریخ ہے اس اکٹھ میں جہاں پشاور کا  قلم قبیلہ  شریک ہوتا وہاں ریڈیو ٹی وی کے فنکار بھی شامل ہوجاتے، مہ جبین قزلباش، اسماعیل شاہد، ڈاکٹر ڈینس آئزک،معشوق سلطان،سید رحمن شینو،صداقت علی(لاہوری بادشاہ) اور ستارہ یونس سمیت کتنے ہی فنکار شریک ہوتے، مگر اب وہ بے فکری کے زمانے خیال و خواب ہوئے،  میرے دوستوں میں صرف دوست عزیز زبیر الٰہی ہیں جو اپنے گھر میں آئے دن موسیقی کی محافل کا اہتمام کرتے ہیں  میں پشاور میں بھی اور اسلام آباد میں بھی ان کی ان عمدہ نشستوں میں شریک ہوتا رہتا ہوں،آج کل ان کی  ایک بہت ہی فعال تنظیم  ”ہوپ“  (ایچ۔او۔پی۔ای، ہیومن اورینٹیڈ پراڈکٹیوانوائرمنٹ) کی سرگرمیاں عروج پر ہیں جس کا  ’سلوگن‘  ”امید ہی زندگی“ ہے ”ہوپ“ تنظیم نہ صرف یتیموں،بیواؤں، مریضوں اور نادار طلبہ کے تعلیمی اخراجات مہیا کرتی ہے بلکہ بے سہارا لڑکیوں کی شادی کے لئے بھی مالی معاونت فراہم کرتی ہے زبیر الٰہی کی خوش قسمتی کہ انہیں چند مخلص رضاکار دوستوں کا ساتھ میسر ہے جن میں ساجد سلطان،  بر خوردار نوید علی شاہ،حنیف بلوچ اور نعیم شاہ بھی شامل ہیں‘ابھی چند دن پہلے زبیر الٰہی نے مجھے ایک تقریب کی دعوت دی تو میں نے کہا کہ پچیس تاریخ ہے میں شاید نہیں آ پاؤں،انہوں نے کہا  مجھے معلوم ہے کہ یہ بچوں کی سالگرہ کادن ہے مگر اس تقریب کے دوران ہی ہم سالگرہ کا کیک بھی کاٹیں گے برخوردار نعیم شاہ کے ساتھ، پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ تقریب  منشیات کے بحالی مرکز میں ”سیو دی لائف فاؤنڈیشن“ کے اشتراک سے ہو رہی ہے جس کے چئیرمین معروف سماجی کارکن اور  بلا کے محبتی دوست حکیم خان ہیں جو سڑکوں سے منشیات کے عادی جوانوں کو  اٹھا کر اپنے مرکز لے آتے ہیں اور ان کا علاج کرواتے ہیں۔بہت دنوں کے بعد موسیقی کی ایک بہت اچھی نشست میں شریک ہوا،سرمنڈل سے شہرت پانے اور پٹیالہ گھرانے کی موسیقی  سے جڑے ہوئے  نیاز خان اور حاجی شفقت علی قوال جیسے باکمال فنکار کے برخوردار امانت علی گوگی نے تو شام موسیقی میں اپنے ہنر کے رنگ بھرے تاہم مہمان خصوصی ایڈیشنل ڈی سی پشاور ہاشم راؤ کے ساتھ آئے ہوئے ان کے محافظ نے  رباب پر ”مونگ یو د خیبر زلمی“  کی دل کو چھونے والی ایسی دھن چھیڑ دی کہ ساری محفل کو مست و الست اور پر جوش بنا دیا تھا۔اور ابھی اس محفل کی سرشاری جاری تھی کہ دوست عزیز اور شاعر دلپزیر ڈاکٹر نذیر تبسم کا فون آیا کہ ڈاکٹر وحید احمد ان کے گھر آ رہے ہیں ممکن ہو تو چلے آؤ، ڈاکٹر وحید احمدنظم کے  بہت ہی خوش گفتار، نغز گو  اور دلربا شاعر اور ناول نگاردوست ہیں،جی خوش ہوا کہ بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی تھی پھرنئے سال کے پہلے ہی مہینے میں یکے بعد دیگرے کئی عمدہ تقاریب میں شمولیت کا موقع مل رہا تھا، کچھ ہی دن پہلے ”حلقہ ارباب ذوق پشاور کے ماہانہ  چیپٹر ’کتاب کہانی‘ میں جواں سال اور جواں فکر مسرور حسین نے ڈاکٹر سلمان علی کی عمدہ تصنیف ”اے نشہ ئ ظہور“ کا کمال چابکدستی سے  تعارف اور تجزیہ پیش کر کے پوری محفل کو اپنا طرفدار بنا لیا تھا، نذیر تبسم کے گھر ہونے والی یہ ادبی نشست بھی کئی حوالوں سے احباب کو تا دیر یاد رہے گی  ڈاکٹر وحید احمد کے ساتھ ساتھ مہمان شاعر دوست ناصر علی ناؔصر کے علاوہ پشاور قلم قبیلہ کے بہت معتبر شاعر ادیب مشتاق شباب،عزیز اعجاز،خالد سہیل ملک،اسحاق وردگ،ملک ارشد حسین،اختر سیماب اور حلقہئ ارباب ذوق پشاور کے سیکرٹری ڈاکٹر فضل کبیر اور جوائنٹ سیکرٹری  افسانہ نگار مسرور حسین بھی شامل تھے، رفتار ادب پر بات شروع ہی اْس دور سے ہو ئی تھی جب پشاور کا ادبی منظر نامہ فارغ بخاری،رضا ہمدانی،شوکت واسطی  اورخاطر غزنوی جسے زعماء کی وجہ سے جگمگا رہا تھا اور احمد فراز،محسن احسان، سجاد بابر اور غلام محمد قاصر کی تازہ کاری اعتبار حاصل کر رہی تھی پھر بات ان احباب تک جا پہنچی جو ہر سال دو کے بعد ایک آدھ شعری مجموعہ ضرور شائع کر تے ہیں،ڈاکٹر وحید احمد نے محبوب خزاں کا اور عزیز اعجاز نے غالبؔ کا حوالہ دیاجن کی ایک ہی کتاب ان کی پہچان بنی ہوئی ہے،یادش بخیر جب ڈاکٹر وحید احمد پشاور کی رورل ا کیڈیمی میں تھے  تو ان دنوں اکیڈیمی میں ایک بہت شاندار کل پاکستان مزاحیہ مشاعرہ بھی ہوا تھا یہ نعمت اللہ عابدؔ بابر کا زمانہ تھا(گزشتہ ماہ وہ بھی بچھڑ گئے،) میں ان دنوں اکیڈیمی کے حوالے سے ایک دستاویزی فلم کا سکرپٹ لکھ رہا تھا تو مشاعرے کا پروگرام میرے سامنے بنتا رہا مشاورت میں  تو مسلسل شامل رہا تاہم  نظامت سے میں نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ میں مزاحیہ شعر نہیں کہتا مگر عابدؔ بابر مرحوم نے ہمارے مشترکہ دوست سید عاقل شاہ سے کہا تو مجھے حامی بھرنا پڑی حالانکہ اس مشاعرہ میں پشاور سے دو ایسے شاعر بھی شامل ہوئے تھے جو اسی دن مزاحیہ شاعر بنے تھے، کچھ بہت عمدہ نجی نشستوں کا اہتمام ڈاکٹر وحید احمد نے کیا تھا جن میں عزیز اعجاز،میں اور ایبٹ آباد سے ابرار سالک مرحوم بھی شامل ہوتے تھے خیر نذیر تبسم کے گھر ہونے والی نشست بہت خوب رہی  جس کا  اختتام وجاہت نذیر کے ترتیب دئیے ہوئے شاندار عصرانہ پر ہوا۔احباب رخصت ہوئے  تو  نذیر تبسم  کے کہنے پر میں اور عزیز اعجاز  رک گئے اور پھر  دیر تک ہم نے ابرارؔ سالک کو  بہت یاد کیا،جس دن،سویرے سویرے ان کے بچھڑنے کی خبر ملی تھی یہ اسی رات کی صبح تھی جب، نصف شب کے لگ بھگ ابرار سالک نے  مجھے فون کر کے کہا تھا ’شاہ جی نیندنہیں آرہی۔ آج مجھے اپنی والدہ مرحومہ بہت یاد آ رہی ہے“ ایسے شعر کہا کرتا تھا۔
یہ لوگ توڑ ہی دیں گے تمہارے سارے خواب
 گھڑی گھڑی ہے چھناکا کہیں چلے  جاؤ