شہر کراچی  یاد  تو ہوگا  تیرے شب بیداروں کو

  ایک زمانے میں قومی ائیرلائن ”پی آئی اے“ کے بہت چر چے تھے با کمال لوگ لاجواب سروس یا لا جواب پرواز  یہ محض نعرہ نہ تھا بلکہ اس ائیر لائن نے واقعی ہوائی سفر کو مثالی بنا دیا تھا اوائل ہی میں عبداللہ بیگ نامی ایک  پائلٹ نے پونے سات گھنٹے میں لندن سے کراچی تک کا سفر طے کر کے عالمی ریکارڈ بنایا تھا،پھر پوری دنیاکی ائیرلائنز میں نہ صرف سب سے زیادہ خوش اخلاق عملہ  پی آئی اے کا تھا خصوصاًخوبصورت مہذب  اور،ہنستی مسکراتی ’ہوائی میزبان‘(ائیر ہوسٹس) بھی قومی ائیر لائن کی تھیں بلکہ ان کا یونیفارم بھی سب سے زیادہ دلکش اور خالصتاً پاکستانی لباس تھا،اور غالباً یہ پہلی ائیرلائن تھی جس نے سب سے پہلے ہوائی سفر کے دوران مسافروں کی تفریح کے لئے موویز دکھانے کا اہتمام کیا تھا گویا دوسری  ائیر لائنز کے لئے ہوائی سفر کے آداب سیکھنے کا بھی یہ ادارہ ایک معتبر حوالہ تھا اس زمانے میں پی آئی اے کے پائلٹس کے بارے میں عمومی تاثر یہی تھا کہ اگر جہاز میں بڑی سے بڑی خرابی بھی پیدا ہو جائے تو یہ با کمال لوگ جہاز کو منزل تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہ وہ زمانہ تھا جب جہاز کے پائلٹ کو  سارے کام خود کرنا پڑتے تھے اب تو ٹیک آف اور لینڈنگ کے علاوہ پائلٹ کے کرنے کے کام کم رہ گئے ہیں سب کچھ کمپیوٹر اور نیوی گیشن سسٹم کے ذمے ہے، یادش بخیر جب ستمبر 1999ء میں مجھے پشاور سے کراچی  اور وہاں سے  مجھے حلقہ ارباب ذوق نیویارک کے عالمی مشاعرہ میں شرکت کے لئے نیویارک تک کا طویل ہوائی سفر در پیش تھاتوجوہر میر ؔمرحوم اور عتیق احمد صٓدیقی کی طرف سے پی آئی اے کا ٹکٹ بھیجا گیا تھا پشاور سے پرواز بر وقت روانہ  ہوئی اوربر وقت کراچی پہنچ گئی تھی مگر کراچی میں موسم زیادہ مہرباں نہ                                                                                                                                 تھا تیز ہواؤں کی وجہ سے رات بارہ بجے کی پرواز کو روک  کر بتایا گیا کہ اب یہ ساڑھے تین گھنٹے تاخیر سے روانہ ہو گی‘ میں نے فوراً کراچی ائیر پورٹ کے فون بوتھ سے جوہر میر صاحب کو مطلع کر دیا تھا کہ جو دوست بھی  مجھے لینے ائیر پورٹ آئے اسے بتا دیں تا کہ اسے انتظار کی زحمت نہ اٹھانا پڑے،اب لطیفہ سنیے جہاز ساڑھے تین بجے روانہ ہوا یہ کوئی لگ بھگ  بیس گھنٹے کی طویل پرواز تھی مگر مسلسل نہ تھی درمیاں میں ساڑھے دس گھنٹہ کے بعدشینن ائیر پورٹ  پربھی اترنا تھا شینن پہنچنے سے پہلے جہاز کے پائلٹ کی اناؤنسمنٹ مجھے آج بھی یاد ہے ”میں کپٹن مجید آپ سے مخاطب ہوں میں بہت پہلے آپ سے بات کر نا چاہتا تھا مگر بیشتر مسافر سوئے ہوئے تھے اس لئے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔اس دوران ہم  مختلف ممالک  (فرینکفرٹ اور ایمسٹرڈم سمیت کئی نام لئے جو اب یاد نہیں)کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے  اب کچھ ہی دیر میں شینن ائیر پورٹ پر پہنچنے والے ہیں،یہاں سے میں اور باقی عملہ آپ کو ایک اچھے اور ہموار سفر کی دعا کے ساتھ الوداع کہے گا یہاں سے نیا کروو(عملہ) آپ کے ساتھ نیو یارک تک رہے گا۔ ہم کراچی سے ساڑھے تین گھنٹہ کی تاخیرسے روانہ ہوئے تھے  لیکن ہم شینن ائیر پورٹ پر صرف ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر سے پہنچ رہے ہیں“ یہ سن کر مسافروں نے تالیاں بجاتے ہوئے پی آئی اے زندہ باد کا نعرہ لگایا اور میں زیر  ِ لب  کہتا ہی رہ گیا کہ ”مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا“ کیونکہ میں جوہر میرؔ صاحب کو تاخیر کا بتا چکا تھا مزید لطیفہ یہ ہوا کہ نئے عملے کے کپتان نے جے ایف کے نیو یارک ائیر پورٹ پہنچنے سے پہلے اناؤنس کیا کہ ہم ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر سے شینن سے روانہ ہوئے تھے لیکن الحمد للہ ہم نیویارک ”ٹھیک وقت“ پر پہنچ رہے ہیں سو ایسی تھی یہ لا جواب سروس اور اس کے باکمال لوگ لیکن ڈھائی دہائیوں میں جانے ایسا کیا ہواکہ بہت سے جہاز گراؤنڈ ہونا شروع ہوئے انتظامیہ ریلکسڈ ہو گئے خسارہ بڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بین الاقوامی ائیرپورٹس کے لئے قومی ائیر لائنزکو ممنوع قرار دیا گیا،ایک ظلم پالیسی بنانے والوں نے یہ بھی کیا کہ غیر ملکی ائیر لائنز کو پاکستان کے سارے ہوائی مستقر استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی جبکہ دنیا بھرمیں ڈومیسٹک پروازیں ملکی ائیر لائنز سے ہوتی ہیں اس پر قومی ائیرلائنز کے عملے میں تخفیف کا بھی نہیں سوچا گیا(یہ سب کچھ پی ٹی وی کی انتظامیہ بھی کر رہی ہے  اس لئے جہاں نجی چینلز کماؤ پوت بن گئے ہیں وہاں پی ٹی وی کو خسارے کا سامنا ہے)کوئی آٹھ دس برس پہلے مجھے ایک عالمی مشاعرہ کے لئے کراچی جانا تھاٹکٹ ایک بار پھر پی آئی اے کا تھا بر وقت ائیر پورٹ پر پہنچا تو معلوم ہوا فلائیٹ چار گھنٹے لیٹ ہے حالانکہ اس وقت تک بس سروس والے بھی دیر سویر کی صورت میں فون پر رابطہ کر لیتے تھے ابتسام بھی چھوڑ کر یونیورسٹی جا چکا تھا، سوچا بہت وقت ہے گھر ہی چلا جاتا ہوں اتنے میں ایک خوبرو اور مہذب نو جوان میرے پاس آیا سلام کر کے تعارف کرایا کہ آپ کے دوست آغا قیصر قزلباش میرے ا نکل ہیں میرا نام شفاعت علی ہے، معلوم ہوا وہ بھی کراچی جا رہے ہیں میں نے کہا کہ جہاز تو چار گھنٹے لیٹ ہے، مسکرا کر کہنے لگے نہیں   میری فلائٹ بالکل بر وقت ہے،وہ ایک نجی ائیر لائن سے جا رہے تھے،کہنے لگے میں جیو نیوز کے پروگرام بنانا نیوز سے جڑا ہوا ہوں میرا روز کا آنا جانا ہے یہ ابھی چار گھنٹہ بتارہے ہیں پھر تین گھنٹہ بعد کہیں گے اور تین گھنٹے لیٹ ہے اور آخر میں کہہ دیں گے آج فلائٹ کینسل ہو گئی، میں نے کہا مگر میرا تو رات کو مشاعرہ ہے، بہت سعادت مند شفاعت علی نے کہا کہ اگر آپ کے پاس ٹریول ایجنٹ کا فون نمبر ہے  تو میں بات کر کے اس ائیر لائن کا ٹکٹ خرید لیتا ہوں اس میں ابھی چار سیٹیں ہیں، وہی ہوا کہ میں شفاعت علی کے ساتھ کراچی پہنچ گیا اور اس دن واقعی پی آئی اے نے اپنی فلائیٹ کینسل کر دی تھی۔ اس بسیار خرابی کے بعد اب غنیمت ہے کہ ایک بار پھر قومی ائیر لائن اپنا  اعتبار بحال کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور کچھ انٹر نیشنل ائیر پورٹس کے لئے اس کی فلائٹس شروع ہو گئی ہیں،اتفاق سے اس بار  کراچی کی فعال ادبی تنظیم ”ساکنان ِ شہر  ِ قائد“ کے دوستان  ِ عزیز ڈاکٹرپیرزادہ قاسم اور محبی محمود خان نے نئے سال کے پہلے عالمی مشاعرے میں مدعو کیا تو ایک بار پھر مجھے پی آئی اے کا ٹکٹ بھیج دیا، سابقہ تجربہ بہتر نہیں تھا مگر کچھ کچھ امید تھی کہ اب یہ ادارہ بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے،اب کے میں قدرے تاخیر سے ائیر پورٹ پہنچا کیونکہ ائیر پورٹ جانے والی اکلوتی شاہراہ پر ہمیشہ کی طرح بے تحاشا گاڑیا ں پھنسی ہوئی تھیں ہارن بج رہے تھے چہروں پر تناؤتھا مگر سب بے بس تھے،ارمان علی  نے گاڑی سے نکل کر حالات کا جائزہ لیا اور کہنے لگا مجھے نہیں لگتا کہ ہم ایئر پورٹ وقت پر پہنچ سکیں گے میں نے دیکھا کہ مسافر اپنی گاڑیوں سے نکل کر سروں پر اپنے سامان اٹھائے پیدل روانہ ہو گئے۔ ائیر پورٹ ابھی بہت دور تھا ہم ناکے کے پاس تھے بالآخر میں نے ایک موٹر سائیکل والے دوست سے لفٹ لی،وہ کمال مہارت سے یہاں وہاں سے نکال کر ائیر پورٹ کے اندر تک لے آیا اس کے گلے میں لٹکے کارڈ نے مجھے بتلایا کہ وہ تو پی آئی اے کاہی کا رکن ہے  مجھے جلدی تھی میں نام بھی نہ پوچھ سکا مگر یہ اچھا شگن لگا  کیونکہ مجھے بہت خوشی ہوئی پشاور کے باچا خان ائیر پورٹ پر  پی آئی اے  کاجو بھی عملہ مو جود تھا ان کا رویہ اور رکھ رکھاؤ بہت اچھا تھا،بروقت جہاز روانہ ہوا انتہائی پر کشش ناشتہ کے ساتھ تواضع کی گئی اور بر وقت کراچی پہنچ گیا جہاں محمود خان  اور مظہر ہانی منتظر تھے جتنی دیر میں مظہر ہانی گرم گرم چائے لایا اتنی دیر میں افتخار عارف،شکیل جاذب اور عمران عامی بھی اسلام آباد سے پہنچ گئے مہمان اور میزبان ائیر پورٹ سے چل پڑے۔ تو کراچی  دیکھ کر رسا چغتاؔئی یاد آ گئے
شہر کراچی  یاد  تو ہوگا  تیرے شب بیداروں کو
 مرزا  رسا چغتائی  بھی تھا  یار ہمارا یاروں  میں