اگر چہ اب تو پاکستان ریلوے سے بہت کم سفر نصیب ہوتا ہے لیکن ایک زمانے میں لمبے سفر کے لئے پہلی ترجیح پاکستان ریلوے سے ہی سفر کرنا ہو تا تھا ریل کے سفر کا اپنا ہی ایک مزہ اور رومینس ہے‘مجھے یاد ہے کہ دو ڈھائی سال قبل لاہور سے پشاور بہ امر مجبوری سفر کرنا پڑا تھا، جب ایک مشاعرہ کے لئے لاہور گیا تھا مگر جس دن واپسی تھی اس دن یار لوگوں نے موٹر وے اور ہائی وے کو ہر طرح کی ٹریفک کے لئے بند کر رکھا تھا اور صورت حال اس حد تک غیر یقینی تھی کہ آنے والے چند دنوں تک بہتری کی کوئی امید نہیں تھی‘ ایسے میں ایک ہی راستہ کھلا تھا اور وہ ٹرین سے سفر کا تھا،بمشکل سٹیشن پہنچا تھا کہ لاہور کی سڑکوں پر بھی ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا‘معروف ا فسانہ و ناول نگار کرنل اسد محمود خان کو جب علم ہوا تو میں سٹیشن پہنچ چکا تھا کہنے لگے میں سٹیشن آ رہا ہوں میں نے انہیں بتایا کہ شہر کے حالات ٹھیک نہیں مگر وہ نہیں مانے اور پہنچ گئے‘ مہم جو اسد محمود خان کی محبتیں اور سعادت مندی بیکراں ہے وہ ریلوے سٹیشن سرکاری یا نجی گاڑی کی بجائے اپنے ڈرائیور کے ساتھ موٹر سائیکل پر آئے تھے‘ ٹرین کے جانے میں ابھی وقت تھا اس لئے نہ جانے کتنی دیر ہم پلیٹ فارم پر گھومتے رہے‘مجھے یہی فکر تھی کہ ابھی ان کو واپس بھی جانا ہے‘اس لئے کئی بار جانے کو کہا مگر ان کا کہنا تھا مہمان کے جانے سے پہلے میزبان کیسے چلا جائے‘بالآخر ٹرین پلیٹ فارم پر آ گئی‘ ٹرین کا کمپارٹمنٹ بہت صاف ستھرا کشادہ اور آرام دہ تھا‘ میں نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان ریلوے سے آخری بار کب سفر کیا تھا تو یاد آیا غالباً کوئی اٹھارہ بیس برس پہلے شاعر دوست کرنل مرشد کی دعوت پر دوستان عزیز سجاد بابر اور حسام حر ؔکے ہمراہ پشاور سے جہلم کا سفر کیا تھا اوربہت انجوائے کیا تھا‘ البتہ اس دوران کئی مرتبہ انڈیا جانے اور ریل گاڑی سے طویل سفر کرنے کا اتفاق ہوا اور ان کی سروس نے بہت حیران کیا،بالکل ائیر لائنز کی طرح مسافروں کے آرام کا خیال رکھا جاتا ہے، کمبل،تولیہ صابن تک مہیا کیا جاتا ہے بلکہ فرسٹ کلاس میں ہمارے ساتھ ایک کارکن کی بھی ڈیوٹی ہوتی تھی جو ڈائننگ کار سے چائے پانی بھی لا کر دیتا تھایہ ساری ساری رات کا سفر ہو تا تھا امرت سر سے دہلی تک دہلی سے الہ آباد اور وہاں سے لکھنؤ تک کے طویل سفر کا تجربہ اور لطف ہی کچھ اور ہے اگر چہ بہت سے دوست سفر کے دوران مزے سے سو جاتے ہیں مگرمجھے سفر میں نیند کم کم ہی آتی ہے اسی طرح معروف ترقی پسند ادیب، دانشور اور کالمسٹ حمید اختر بھی نہیں سوتے تھے‘ سو مجھے ان کے پاس بیٹھنا اچھا لگتا جب وہ اپنی جوانی کے دنوں کے دوستوں کے قصے چھیڑ دیتے تھے، میں نے ان سے ان اسفار میں ساحر لدھیانوی، امرتا پریتم، کرشن چندر،فیض احمد فیض اور منٹو سمیت اس زمانے کے ان گنت ترقی پسند قلکاروں کی وہ کہانیاں سنی ہیں جو کہیں بھی لکھی ہوئی نہیں ہیں پھر انہیں کمال لطیفے یاد تھے جو گاہے گاہے ان کے کالم میں بھی موقع محل کی مناسبت سے جگہ پاتے تھے، معروف افسانہ و ڈرامہ نگار اور شاعرہ فرحین چودھری کے ساتھ بھی دو مرتبہ انڈیا کی سارک صوفی کانفرنس میں جانے کا اتفاق ہوا انہیں بھی ریل گاڑی کا سفر اچھا لگتا ہے،اک یادگار سفر ان کے ساتھ امرت سر سے محبتوں کے شہر آگرہ تک کا کیا اور آگرہ پہنچتے ہی ہمیں ہوٹل اپنے کمروں تک جانے کی بجائے براہ راست صوفی کانفرنس میں جانا تھا اور لاہور سے واہگہ پہنچ کر پیدل سرحد پار کر کے امرت سر داخل ہوئے اور ایک کوچ میں ریلوے سٹیشن پہنچے اور پھر آگرہ کا رخ کیااتنے طویل سفر کے بعد سامان گاڑیوں سے اتارے بنا کانفرنس میں شرکت کے لئے ہال میں داخل ہو گئے، بلکہ چائے کا پہلا کپ اور بھرپور ناشتہ ہمیں کانفرنس کی ”ٹی بریک“ میں نصیب ہوا، یہ وہی فائیو سٹار ہوٹل تھا‘جہاں ناشتہ سے پہلے مجھے وائی فائی کی ضرورت تھی کہ لاہور کے بعد گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا اور ان دنوں حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے، مگر الجھن یہ آن پڑی تھی کہ ایک ویٹر سے پوچھا کہ وائی فائی ہے اس نے کہا جی ہے میں نے کہا ”پاس ورڈ“ کیا ہے کہنے لگا پتہ نہیں اور آگے بڑھ گیا‘ میں نے دیکھا کہ اس ہو ٹل میں دو افغانی لڑکیاں فون پر خوش گپیاں کر رہی تھیں‘ ان کے پاس جا کر پاس ورڈ کا پو چھا‘ انہوں نے بھی لا علمی کا اظہار کیا، کہ پتہ نہیں (یادش بخیر ان دونوں افغان لڑکیوں کے بارے میں بہت پہلے کسی کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ ان سے ایسی دوستی ہو گئی تھی کہ جس دن ہم آگرہ سے واپس آرہے تھے تو وہ رو رہی تھیں) خیر مجبوراً میں منیجر کے پاس گیا اور وائی فائی کا پوچھا انہوں نے بڑے مہذب انداز میں جواب دیا ”سر! پتہ نہیں“ مجھے غصہ آ گیا میں نے پوچھا ’ تو پھر کس کو پتہ ہے؟‘ کہنے لگے کیا؟ میں نے کہا وائی فائی پاس ورڈ؟ کرسی سے اٹھ کر بڑے مہذب لہجے میں کہا، سر! بتا تو دیا ہے، میں نے کہا کیا؟ کب؟ کہنے لگے ’پتہ نہیں، یعنی پی اے ٹی اے۔۔۔۔ اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کیونکہ اس ہوٹل کے وائی فائی کا پاس ورڈ یہی تھا جو ہر شخص مجھے بتا رہا تھا ”پتہ نہیں“ اور میں بلا وجہ یہاں وہاں ڈھونڈتا بھاگتا پھر رہاتھا پاس ورڈ ملا بات ہوئی تو ناشتہ کا خیال آیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو ’دکان اپنی بڑھا گئے‘ اور یار لوگ دوبارہ کانفرنس ہال جانا شروع ہو گئے ہیں، بات ٹرین کے سفر کی ہورہی تھی تو دو سال پہلے کے ایک خوشگوار اور خنک موسم گرما میں برطانیہ کے شہر ’لوٹن‘ سے میں اور رفعت علی سیّد رومی سوسائٹی کے دوستوں پروفیسر محمود رضا اور ڈاکٹر عامر نواز کی دعوت پر برمنگھم گئے تھے برطانیہ کا ریلوے سسٹم بھی یقیناً بہتر بلکہ بہت بہتر ہے لیکن وہاں ٹرین سے سفر کا لطف اس حوالے سے شاندار ہو تا ہے کیونکہ کھڑکی کے باہر کی دنیا مسحور کن ہوتی ہے، برطانیہ اپنی تا حد ِ نظر پھیلی ہوئی چراہ گاہوں اور سرسبز و شاداب سبزہ زاروں کی وجہ سے ہی مشہور ہے اور ان نظاروں کو دیکھنے کا صحیح لطف ٹرین کے سفر میں ہی آ تا ہے خصوصاً جب ذرا ذرا وقفوں سے ان چراہ گاہوں میں کہیں گھوڑا، گائے یا بھیڑیں چرتی نظر آتی ہیں، ایسا لینڈ سکیپ جو روح تک کو سیراب کر دیتا ہے اس دن ہماری منزل برمنگھم کے نواح میں ولیم شیکسپئر کے دربار میں حاضری تھی اور پھر گزشتہ برس کی سترہ اگست کو بزم سخن لندن کے معروف شاعر دوست سہیل ضرارؔ کی دعوت پر ٹرین کے ذریعے برمنگھم سے لندن جانے کا تجربہ تو اب بھی مجھے تنہا پا کرمیرے پاس آ بیٹھتا ہے اور میں خود کو اس مسافر کی طرح پریوں کے دیس کی طرف سفر کرتا ہوا محسوس کرتا ہوں جسے کسی سٹیشن پر اترنا نہیں ہے۔ جمال احسانی ؔ یاد آگئے۔
اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے