وہ فصل ِگل کی طرح آ تو جائے گا لیکن 

  پشاور میں مئی کا مہینہ اپنی روایتی گرمی کے ساتھ گزر رہا ہے کیونکہ اب تو ویساکھ کی رت بھی لد چلی ہے لیکن امریکہ اور خصوصاََ کولوراڈو میں کہیں اب جا کر بہار نے اپنا چہرہ دکھانا شروع کیاہے اور گزشتہ ہفتے کی بارشوں کے بعد سارے ٹنڈ منڈ درخت یک لخت سبز پتوں سے بھر گئے گویا جس بہار کی بات میر تقی میر نے کہی تھی 
چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
 پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے 
وہ یہاں اب شروع ہو رہا ہے گزشتہ کل شب مہتاب تھی مجھے رہ رہ کر احباب کے ساتھ گزاری ہوئی پورے چاند کی ان گنت راتیں دیر تک یاد آتی رہیں، یہ تو غنیمت ہے کہ اسی دن افراز علی سیّدنے ایک بہت ہی بھرپور شعری نشست کا اہتمام گھر پر کر دیا تھا، اس نشست کے محرک دراصل ڈینور کی جانی پہچانی متحرک ادبی شخصیت اسرار الحق تھے لیکن پھر احباب کی تعداد بڑھتی گئی اور سب متفق تھے کہ کسی ہال کی بجائے تقریب کھلے آسمان تلے ہو اور یوں قرعہ فال افراز کے گھر کے کشادہ بیک یارڈ کے نام نکلا یہ کئی لحاظ سے ایک عمدہ اور بھرپور نشست تھی احباب کی دلچسپی کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بہت دنوں بعد ادبی تقریب کا حصہ تھے‘موسم بھی بہت مہربان تھا مسلسل کئی ابر آلود دنوں اور شور مچاتی ہوئی بارشوں کے بعد کم و بیش سارا دن دھوپ کا ساتھ رہا،موسم تو خیر ہر جگہ بدلتے رہتے ہیں لیکن ڈینور کولوراڈو کی طرح کا متلون مزاج موسم شاید ہی کہیں اور ہو،بسا اوقات ایک ہی دن صبح تیز دھوپ دوپہر میں بادل پھر موسلا دھار بارش تیز خنک ہوائیں اور رات کو جم کے برفباری ایسی کہ صبح ٹھٹھر کر رہ جائے ویسے تو زمین کے کام اب ہر جگہ بڑھ گئے ہیں اس لئے نہ تو موسموں کے بدلاؤ کی طرف کسی کا دھیان جاتا ہے نہ ہی آسمان کی طرف دیکھنے کا وقت کسی کے پاس ہے اس کے برعکس امریکا میں بہت ہی مصروف رہنے والے لوگ بھی موسموں کے حوالے سے خاصے آ گاہ ہیں اور اپنی تفریح کے لئے اچھے موسموں کا انتظار کرتے ہیں جیسے ستمبر کی بارشوں کے بعد جب پت جھڑ کا آغاز ہوتا ہے تو پہلے درختوں کے سبز پتے ہلکے زردی مائل ہو کر سنہرے اور پھر دل کو موہ لینے والے شنگرفی رنگ میں ڈھل جاتے ہیں تو یہ منظر دیکھنے کے لئے یہاں ڈینور کے لوگ پہاڑی سلسلوں، ڈلن جھیل اور اسٹس پارک کے قصبوں کا رخ کرتے ہیں ان قصبوں میں رنگ بدلتے پتوں کا یہ میلہ دیکھنے لئے ویک اینڈ پر جانے کہاں کہاں سے لوگ امڈ پڑتے ہیں پھر جیسے ان علاقوں میں ایک تہوار بلکہ ایک جشن کا سماں ہوتا ہے اور
 اگر یہ پورے چاند کی راتیں ہوں تو پھر دیر تک یہ منظر شب تاب دیکھنے لوگ رک جاتے ہیں، یہاں کی بہار اور خزاں کی رتوں کی ترتیب ہمارے ہاں کے دیسی مہینوں کے بر عکس اپنا مزاج رکھتی ہے دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اپنی تمام تر مصروفیات اور ایک طرح سے میکانکی زندگی گزارنے کے باوجود وہ فطرت کے حسن سے لطف بھی لیتے ہیں بلکہ انہوں نے تو مختلف رتوں میں آنے والی شب مہتاب کے بھی اپنے الگ سے نام رکھ چھوڑے ہیں، مائیکرو مون، بگ مون اور سپر مون کا حوالہ تو مان لیجئے سائنس کا اور سائنسدانوں کا ہے یعنی جب زمین سے چاند کا فاصلہ کم ہو تو سپر مون اور جب زیادہ ہو تو مائیکرو مون کہلاتا ہے مگر اس سے ہٹ کر بھی مختلف مہینوں میں پورے چاند کے اپنے اپنے نام ہیں جیسے جون کا پورا چاند اسٹرابری کا چاند کہلاتا ہے اسی طرح مکئی کا چاند،دسمبر کے مہینے میں ’سرد چاند‘ اسٹڑجن(شارک کی طرح کی مچھلی) مون اور مئی کے مہینے میں آنے والی شب مہتاب کو ”فلاور مون“ نائٹ کہتے ہیں چونکہ مئی کی بارشوں سے درخت سبز پتوں سے اور پودے نیلے پیلے اودے اودے رنگ کے پھولوں سے بھر جاتے ہیں اس لئے مئی کے مہینے کے پورے چاند کو پھولوں کا چاند کہتے ہیں اگر چہ اس بار نظر آنے والا پورا چاند باقی مہینوں کے چاند کی نسبت چھوٹا (مائیکرو مون) تھا کیونکہ اس کا زمیں سے فاصلہ چار لاکھ کلو میٹرز سے بھی زیادہ تھا پشاور میں کچھ دوست ایسے ہیں جنہیں مجھے برقی پیغام کے ذریعے یاد دلانا پڑتا ہے کہ گھر سے باہر نکلیں یا پھر چھت پر چلے جائیں کیونکہ پورا چاند بہت اداس ہے کہ کوئی اسے دیکھ ہی نہیں رہا کچھ دوستوں کی طرف سے مجھے میسج آتا ہے کہ ہم پورے چاند کو دیکھ رہے ہیں‘ افراز علی سیّد ڈینور کے آسمان پر تیرتے ہوئی چاند کی ٹکیہ کی ساخت یا متحرک تصویریں بھیجتا ہے یا پھر دوست مہربان میجر عامر موٹر وے پر سفر کرتے ہوئے چاند کو اپنے ساتھ محو سفر دیکھ کو فون کرتے ہیں حسب معمول بہت سے شعر سناتے ہیں اس طرح
 امریکا میں میرے جس دوست کی زبان پر ہمہ وقت اشعار ہوتے ہیں وہ ہیوسٹن میں رہتے والے عنایت اشرف ہیں لیکن اپنے دوستوں اور ادبی حلقوں میں عیش بھائی کے نام سے معروف ہیں وہ خود تو شاعر نہیں ہیں البتہ ان کے بھائی عقیل اشرف بہت ہی عمدہ شاعر،ادیب،ڈرامہ نگار اور براڈ کاسٹر ہیں ان کے خاندان کا تعلق دہلی کے شہزادگان ِ مغلیہ سے ہے اور عقیل اشرف ریڈیو پاکستان بہاولپور کے سٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے مجھے اس کالم کے لکھنے کے دوران ہی عیش بھائی کا صوتی پیغام آیا،حسب معمول شعر سنانا شروع کر دیا لیکن شعر شروع کرتے ہی انہوں نے رونا شروع کر دیا اور بمشکل رحمان فاؔرس کا یہ شعر مکمل کر پائے
کہانی ختم ہوئی اور ا یسی ختم ہوئی 
 کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
جس کے بعد روتے روتے اتنا کہہ پائے کہ عقیل بھائی کی کہانی ختم ہو گئی ہمیشہ اپنے اور غیروں کے زخموں پر پھاہے رکھنے والے عیش بھائی کے لئے تو یہ صدمہ جانکا ہ ہے مگر ہیوسٹن کی ساری کمیونٹی اور خصوصاً ادبی حلقوں کے لئے بھی یہ بہت دکھ بھری خبر تھی کہ وہ اپنی مختصر بیماری سے پہلے ادبی نشستوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے رہے ہیں میری ان سے کئی ملاقاتیں فیاض خان رامپوری اور شاہ غزالی کی فعال تنظیم”تقدیس ادب انٹرنیشنل“ کی ادبی نشستوں میں ہوئیں، جب بھی ہیوسٹن جاتا ہوں تو دوسرے ان گنت مہمان شعراء کی طرح میں بھی عیش بھائی کے گھر میں رہتا ہوں گھر سے نکل کرپہلے عقیل بھائی کی طرف جانا اور ان کو ساتھ لے کر تقریبات میں جانا ہمارامعمول ہے اس لئے آتے جاتے ہوئے راستے میں زیادہ بات ریڈیو کے حوالے سے ہوتی تھی انہیں ریڈیو سے عشق تھا بہاولپور ریڈیو اسٹیشن کو اعتبار دلانے میں ان کی خدمات کبھی نہیں بھلائی جاسکتیں،گزشتہ سال اکتوبر میں ان سے آخری ملاقات ہوئی ہمیشہ کی طرح دھیمی دھیمی مسکان ہونٹوں پر سجائے پیار بھری گفتگو کرتے رہے ان کو یہی قلق تھا کہ شعرو ادب سے جڑے بہت سے لوگوں نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے اس لئے ان کے شعر میں وہ تاثیر نہیں ہوتی جو شعر کو زندہ رکھتی ہے‘ مجھے اس دوران ایک لمحہ کو بھی خیال نہیں آیا کہ جب میں دوبارہ آؤں گا تو مجھے ان کے بچھڑنے کی دکھ بھری خبر ملے گی مقبول عامر نے ٹھیک ہی تو کہا ہے
وہ فصل گل کی طرح آ تو جائے گا لیکن 
 مجھے خزاں کی ہوا دور لے گئی ہو گی