پرانا پشاور کہاں کھوگیا ہے؟

ایک لمبے عرصے تک ریڈیو پاکستان پشاور موسم بہار کی آمد پر اپنے سبزہ زار پر ہر سال جشن بہاراں کے نام سے مارچ کے ماہ میں تین راتوں پر محیط موسیقی کی محافل منعقد کیا کرتا تھا ایک رات ہلکی پھلکی موسیقی دوسری فوگ موسیقی اور تیسری کلاسیکل موسیقی کیلئے مختص ہوتی ان محافل میں ملک کے چیدہ گلوکار ا پنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے اور یہ محافل براہ راست ملک بھر کے ہر ریڈیو سٹیشن سے نشر کی جاتیں اب یہ سب کچھ قصہ پارینہ ہو چکا ہے ہم نے ان محافل میں استاد امانت علی‘ فتح علی‘ استاد نزاکت علی‘ سلامت علی‘ مہدی حسن‘ اقبال بانو‘ فریدہ خانم اور مینا لودھی جیسے گلوکاروں کو حصہ لیتے سنا ہے اس طرح ریڈیو پاکستان پشاور سے اردو اور مقامی زبانوں میں مشاعرے نشر کئے جاتے۔ میونسپل کمیٹی کی پائپ لائن سے محلوں میں واقع گھروں میں جو پانی سپلائی کیا جاتا وہ اتنا صاف اور شفاف تھا کہ اس کے پینے سے کسی کو معدے کی کوئی بیماری نہیں لگتی تھی منرل واٹر کا بھلا ماضی میں رواج کہاں تھا تقریباً ہر محلے میں ٹھنڈے پانی کے کنویں موجود 
تھے جن کو میونسپل کمیٹی والے ہر سال سردی کے موسم میں ان میں نمک ڈال کر صاف کرتے اکثر لوگ گرمیوں میں ان کنوؤں کا پانی پیتے ہر محلے میں نانبائی کا تندور اور گوالے کی دکان صبح فجر کی اذان کے ساتھ کھل جاتی کیونکہ زیادہ تر لوگ صبح کا ناشتہ روغنی روٹی اور بالائی جسے ملائی کہا جاتا کے ساتھ کرتے پشاور کے گردونواح میں واقع دیہی علاقوں سے صبح سویرے گوالے گدھا گاڑی یا تانگوں کے ذریعے تازہ دودھ پہنچاتے۔ پشاور میں واقع جناح پارک نے بھی کئی رنگ بدلے ہیں‘کہتے ہیں اس کو اس وقت کے پشاور کے گورنر سر جان کننگھم نے اپنی نگرانی میں بنوایا تھا لہٰذا ایک لمبے عرصے تک یہ کننگھم پارک کہلایا کسی دور میں اس میں فٹبال ٹورنامنٹ بھی کھیلے گئے اس 
سے متصل جلیل کباب والے کی دکان ہوا کرتی تھی‘ اسی طرح نوتھیہ میں کریم کبابی کے کباب بھی پشاور کی پہچان تھے۔ اسلامیہ کالج پشاور شہر سے ایک لمبے فاصلے پر واقع ہے کسی زمانے میں یہ پشاور کاواحد معیاری کالج تھا، پشاور شہر کے ہشت نگری گیٹ میں روڈ ویز ہاؤس سے چلنے والی بس سروس جو پشاور صدر سے ہوتی ہوئی اسلامیہ کالج جاتی تھی اس کے ذریعے ہزاروں کے قریب طالب علم بہ آ سانی اسلامیہ کالج پہنچ جاتے بعد میں جب اسلامیہ کالج کے قریب ہی پشاور یونیورسٹی بنی تو اس کے طلبا نے بھی اس بس سروس سے استفادہ کیا،اب تو نہ وہ روڈ ویز ہاؤس باقی رہا ہے اور نہ وہ بس سروس‘ روڈ ویز ہاؤس کو کالج میں تبدیل کرنا اتنا ہی غلط فیصلہ تھا جتنا کہ جی ٹی ایس بس سروس کو بند کرنا‘ پبلک سیکٹر میں چلنے والی اس ٹرانسپورٹ کو جب تک اچھے محنتی اور جفاکش افراد چلا رہے تھے تو اس کی کارکردگی لاجواب تھی اور مسافر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے کے بجائے جی ٹی ایس کے ذریعے سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے جی ٹی ایس نہ صرف خیبر پختونخوا کے اندر تمام اضلاع تک چلتی تھی بلکہ اس کی بسیں لاہور تک جایاکرتی تھیں۔