چین کی ٹیکنالوجی کی برتری 

مقام شکر ہے کہ پاکستان اور بھارت  نے جنگ بندی پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے گزشتہ چند دنوں میں بھارت کو البتہ یہ پتہ  چل گیا ہے  کہ پاکستان کوئی لقمہ تر نہیں جو  آسانی سے اس کے حلق سے اتر جائے گا اس  کے ہر حملے کا پاکستان کی افواج نے بروقت جواب دے کر اسے یہ باور کرا دیا کہ اس کی افواج پیشہ ورانہ مہارت اور شجاعت میں  پاکستان کی افواج کا عشرعشیر بھی نہیں ہیں‘اخلاقی عسکری اور  سیاسی لحاظ سے پاکستان یہ مختصر چند روزہ پاک بھارت جنگ جیت چکا‘اب اس فتح کو مذاکرات میں بھی منتقل کرنا ضروری ہے‘ مذاکرات میں مقبوضہ کشمیر  کا مسئلہ سر فہرست ہونا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پہلگرام کے دہشت گردی کے واقعہ کی تحقیقات پر زور دینا بھی۔اب تک یہ تاثر عام تھا کہ ٹیکنالوجی میں مغرب کا جواب نہیں پر چین نے پاک بھارت کی حالیہ جنگ میں اس مفروضے کو غلط ثابت کر دیا ہے‘ چینی ساخت کے جہازوں نے جو پاکستان کے زیر استعمال تھے‘ فرانس کے رافیل نامی  جہازوں  کو مات دی جو بھارت کی ائر فورس کے استعمال میں تھے۔یہ بات تو طے ہے کہ اگر بھارت نے حالیہ جنگ میں ہم سے مار نہ کھائی ہوتی تو  وہ نہ جنگ بندی کرتا اور نہ گفت وشنید کی طرف راغب ہوتا‘ ضروری ہے کہ جو برتری ہم نے میدان جنگ میں بھارت پر حاصل کی ہے اس کا اب مذاکرات کی میز پر بیٹھ کرہم پورا پورا فائدہ اٹھائیں۔ سندھ طاس معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کرنے کے لئے بھارت کو مجبور کرنا‘ پہلگام واقعے کی اقوام متحدہ سے انکوائری کرانا اور مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنا وہ تین اہم امور ہیں جو گفت و شنید کا حصہ ہونا ضروری ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کے صدر کا جھکاؤ نریندرا مودی کی جانب زیادہ ہے بہ نسبت پاکستانی حکمرانوں کے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ بھارت نے اسرائیلی ڈرون طیاروں کو حالیہ جنگ میں استعمال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اسرائیل اور بھارت کے درمیان محبت کی پینگیں موجود ہیں۔ امریکہ کے صدر کے منہ سے یہ الفاظ نکلنا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کریں گے‘اس ملک کے عام آدمی کے کانوں کو بھلے لگے ہیں اب خدا کرے کہ چند دنوں میں پاک بھارت کے جو مذاکرات ہونے جا رہے
 ہیں ان میں کشمیر کا مسئلہ سر فہرست ہو‘ ورنہ برصغیر میں وقتاً فوقتاً پاکستان اور بھارت میں کشیدگی رہے گی اور دیرپا امن قائم نہیں ہو سکے گا‘ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ حالیہ جنگ میں ہماری کامیابی کی وجہ اگرہماری ائر فورس کی مہارت تھی تو دوسری طرف ہمارے پاس جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی بھی تھی اور جنگی ہوائی جہاز بھی‘لہٰذا مستقبل میں ہمیں ان تجربات سے فائدہ اٹھا کر وطن عزیز کے دفاع پر بھاری رقم خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے‘کوئی مانے یا نہ مانے‘ہندو لیڈر شپ کے ذہن پر ضیاء الحق کے یہ الفاظ چھائے رہے ہوں گے جو انہوں نے راجیو گاندھی کو کہے تھے کہ پاکستان کے خلاف اٹیمی اسلحہ استعمال کرنے کا کبھی سوچنا تک نہیں کہ اگر تم نے ایسا کیا تو اگرہم تباہ بھی ہو گئے پھر بھی دنیا میں پچاس سے زیادہ مسلمان ملک زندہ رہیں گے‘ پر اگر پاکستان نے بدلے میں بھارت پر اٹیم بم پھینکا تو دنیا سے ہندو دھرم کے نام لیوا لوگوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔