اہم قومی و عالمی امور

 لگ یہ رہا ہے کہ ٹیرف  کے معاملے میں جب چین  نے ٹرمپ کو آنکھیں دکھلائیں  تو وہ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا ہے اور اب وہ اس مسئلے پر نظر ثانی کر رہا  ہے‘ فارسی زبان کا یہ شعر اس پر صادق آ تا ہے کہ 
ہر چہ دانا کند کند نادان لیک    از خرابی بسیار‘یعنی ہر وہ کام جو عقلمند کرتا ہے وہ ایک نادان کافی غلطیوں کے بعد کرتا ہے یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ عالمی سیاست میں امریکہ چین کا عشر عشیر بھی نہیں امریکہ تو بقول کسے جمعہ جمعہ آ ٹھ دن کی پیداوار ہے‘چند سو سال پہلے اس کا دنیا کے نقشے پر نام و نشان کہاں تھا‘اس کی اپنی کوئی شناخت نہیں‘ وہ بقول کسے نیشن آف نیشنز ہے دنیا کے ہر کونے سے وہاں معاش کی تلاش کے واسطے لوگ آ کر آباد ہوتے رہے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں چین کی اپنی 5000سال پر محیط ایک پرانی تاریخ ہے اپنی منفرد ثقافت اور تہذیب ہے جس  کی جھلک  اس کے لیڈروں کی بول چال اور سیاسی فہم میں نظر آتی ہے‘ چینی ایک سنجیدہ اور دور اندیشی قوم ہیں ان کے رگ و پے میں عظیم فلسفی کنفیوشس کی تعلیمات سرائیت کر چکی ہیں‘ادھر امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کو دھمکی دی ہے کہ وہ کسی قیمت پر بھی اسے  جوہری طاقت بننے نہیں دے گا‘ امریکہ کے اندر یہودیوں کی لابی اتنی مضبوط ہے کہ وہ کب چاہتی ہے کہ مشرق وسطیٰ کا کوئی بھی اسلامی  ملک اتنا مضبوط ہو جائے  کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ٹکر لینے  کی پوزیشن میں آ سکے۔ وفاقی حکومت کایہ فیصلہ  قابل تعریف ہے کہ قومی شناختی کارڈ ہر شہری کا میڈیکل ریکارڈ نمبر تصور کیا جائے گا‘ اسی طرح پاکستان اور بنگلہ دیش میں 15 سال بعد سفارتی مذاکرات کی بحالی ایک اہم پیش رفت ہے۔یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ ہماری ٹیکسٹائل اور گارمنٹس برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔روس کاطالبان کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ عالمی سیاست اپنا رنگ بدل رہی ہے‘کل کے دشمن دوست اور کل کے دوست آج کے دشمن بننے جا رہے ہیں۔