قصہ ایک ناقابل فراموش پکچرکا

 برصغیر میں ٹاکیز talkiesفلمیں 1913 ء میں بننا شروع ہوئی تھیں اس سے پیشتر خاموش فلمیں یعنی silent movies   تخلیق ہوا کرتی تھیں انارکلی اور مغل شہزادے کے رومان پر یوں تو کئی  فلمیں تخلیق ہوئیں پر جو نام کے آ صف کی فلم مغل اعظم نے کمایا ہے وہ کسی اور کے نصیب میں نہ تھا اس فلم کی ایک خاصیت یہ تھی کہ اس میں کلیدی کردار ادا کرنے والوں کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا‘ شہزادہ سلیم اور مغل اعظم کا رول بالترتیب دلیپ کمار اور پرتھوی راج نے ادا کیا جو پشاور سے تعلق رکھتے تھے انارکلی کا رول مدھوبالا نے ادا کیا تھا جن کی جائے پیدائش صوابی تھی اس فلم کے ہدایت کار نے موسیقار نوشاد علی سے  جو اس فلم کے واسطے نغمے کمپوز کر رہے تھے یہ کہا کہ وہ اس میں استاد  بڑے غلام علی خان کی آواز میں ایک راگ ریکارڈ کروائیں‘مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ بڑے غلام علی خان فلموں کے  لئے بالکل نہیں گاتے تھے ان کو مغل اعظم کے لئے گانے پر کس طرح مجبور کیا جائے‘نوشاد علی کو ایک ترکیب سوجھی انہوں نے بڑے غلام علی خان سے کہا کہ وہ کے آ صف کو ساتھ لے کر ان کے پاس آئیں گے اور ان سے اس فلم کیلئے ایک راگ گانے کی درخواست کریں گے‘ بس آپ ان سے اتنی بڑی رقم کا تقاضا کر دیں کہ وہ خود ہی اپنی اس خواہش سے دستبردار ہو جائیں اس طرح آپ کا بھرم بھی رہ جائے گا اور کے آ صف  بھی مجھ سے ناراض نہ ہوں گے چنانچہ اس پروگرام کے تحت نوشاد علی کے آصف کے پاس پہنچے اور جب انہوں نے بڑے غلام علی خان سے راگ ریکارڈ کرانے کی بات کی تو انہوں  نے کہا کہ چونکہ آپ دونوں ایک جرگے کی شکل میں آ ئے ہیں اس لئے میں انکار تو نہیں کروں گا پر میری ایک شرط ہے میں راگ گانے کے 25000  روپے لوں گا‘  یہ وہ زمانہ تھا جب لتا اور رفیع جیسے بڑے گلوکار فلموں میں ایک گانا گانے کے تین ہزار روپے سے زیادہ رقم نہیں  لیا کرتے تھے۔ کے آصف  نے جواب میں غلام علی خان سے کہا حضور مجھے آپ کی یہ شرط منظور ہے‘ یہ تو آپ کے ایک بول کی قیمت ہے۔ اس طرح غلام علی خان پھنس گئے اور ان کو وہ راگ گانا پڑا جو شہزادہ سلیم اور انارکلی کی ملاقات کے ایک رومانوی سین کے بیک گراؤنڈ میں چلایا  گیا‘ اسی فلم کے دوران دلیپ کمار اور مدھوبالا کے رومان کے  چرچے عروج پر تھے‘ مدھو بالا کے والد  عطاء اللہ اور دلیپ کمار کے درمیان ایک چپقلش کی وجہ سے ان کی شادی میں رکاوٹ آ رہی تھی عطا ء اللہ شوٹنگ کے دوران مدھوبالا کو اکیلا نہیں چھوڑتے تھے‘ اب کے آ صف کو فلم مغل اعظم کے ایک سین کی شوٹنگ میں اس وجہ سے دقت آ رہی تھی جس کا حل انہوں نے یوں نکالا کہ اس سین کی شوٹنگ کے دوران انہوں نے ایک شخص کو مدھو والدکے ساتھ جوا کھیلنے پر بٹھا دیا‘وہ دونوں جب جوا کھیلنے میں منہمک ہو جاتے تو پھر ان کو کسی اور بات کی فکر نہ رہتی چنانچہ جب وہ جوا کھیلنے بیٹھے تو اس دوران کے آصف نے دلیپ اور مدھو بالا پر وہ رومانی سین فلما لیا‘ فلم  مغل اعظم کا شمار برصغیر کی معدودے چند کلاسیکل فلموں میں ہوتا ہے۔