یہ امر خوش آئند ہے کہ طورخم سرحد پر پیدل آ مدو رفت بھی شروع ہو گئی ہے پر اس پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ایک عرصے سے اس بارڈر پر تعینات پاکستانی اور افغانستانی سکیورٹی کے عملے کی بات بات پر ان بن اور مڈبھیڑ ہو جاتی ہے‘ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس سرحد پر بارڈرکی مینجمنٹ ناقص ہے جس کو درست کرنا ازحد ضروری ہے‘ اس فساد کی جڑ یہ ہے کہ ابھی تک ارباب اقتدار نے افغانستان کے ساتھ اس روز روز مسئلے پر سنجیدگی سے بات چیت ہی نہیں کی ہے‘ اگر ہمارے حکام سیاسی مصلحتوں کو ایک طرف رکھ کر پاکستان میں افغانیوں کے دخول کو ایک فول پروف امیگریشن کے نظام کے تابع کر دیں بالکل اسی طرح کہ جس طرح امریکہ اور انگلستان میں بیرونی ممالک سے ان ممالک کا دورہ کرنے والوں کے لئے کیا گیا ہے تو اس مرض کا علاج ممکن ہو سکتا ہے‘یہ امر افسوس ناک ہے کہ ہمارے ہر حاکم اور ہر حکومت نے افغانستان کی ہر حکومت کے ساتھ بنا کر رکھنے کی کوشش کی ہے جس کو افغانستان کے حکمرانوں نے ہماری کمزوری سے تعبیر کیا ہے‘افغانستان میں بادشاہ بھی برسر اقتدار رہے‘کمیونسٹ نظریات رکھنے والے حکمران بھی اور اسلامی نظام کا دم بھرنے والے لوگ بھی‘ ان سب میں ایک قدرے مشترک یہ تھی کہ پاکستان کے بارے میں ان کا رویہ ہمسایوں جیسا نہیں تھا۔ اب آتے ہیں ایک اہم مسئلے کی طرف‘ایک طرف تو حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں امسال بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کر رہی کہ خزانہ خالی ہے اور آئی ایم ایف سے مانگے تانگے پر ملک کی معیشت چلا رہی ہے‘پر دوسری طرف وفاقی کابینہ ارکان کی تنخواہ اور الاؤنسز میں 188 فیصد اضافہ کر دیا گیاہے کیا یہ بقول کسے کھلا تضاد نہیں ہے‘۔موسمیاتی تبدیلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امسال بہار کا موسم جو فروری کے وسط سے شروع ہو کر مارچ کے وسط میں ختم ہو جایا کرتا تھا‘ہم نے دیکھا ہی نہیں بہار کے آدھے مہینے کو سردی کھا گئی ہے اور لگتاہے باقی ماندہ گرمی کی نذرہو جائے گا‘ اب خدا خیر کرے اگر سال رواں میں گرمی نے اپنا جلوہ دکھایا اور ملک کے شمالی علاقہ جات کے گلیشیرز‘ تودے سورج کی حدت سے پگھلے تو ملک کے کئی میدانوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگی اور پراپرٹی کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘اس ضمن میں جسٹس جمال مندو خیل کے یہ ریمارکس بالکل درست ہیں کہ حکومت کو چیتے کی رفتار سے چلنا چاہیے لیکن وہ کچھوے کی چال چل ری ہے‘ موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام میں حکومت نے سستی کا مظاہرہ کیا ہے‘ 2017ء میں قانون بنا اب تک نہ تو اس کا چیئرمین مقرر ہوا اور نہ رولز بنے یہ ریمارکس انہوں نے اس اتھارٹی کے قیام کے متعلق اگلے روز ایک کیس کی سماعت کے دوران دئیے ہیں ہمارے اکثر سیاسی لیڈروں اور ارباب اقتدار کے منہ سے جب ہم یہ بات سنتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے یہ کر دیا ہے وہ کردیا ہے توہمیں ایک معروف لکھاری کی وہ بات یاد آ جاتی ہے جس نے ایک مرتبہ انگلستان کے نا قابل اعتبار موسم کے بارے میں کہا تھا کہ ہر کوئی اس کے موسم سے تنگ ہے اور اس کا گلہ کرتا ہے‘ پر کوئی بھی اسے ختم نہیں کرتا ہمارے سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کا بھی یہی عالم ہے جتنی بے حیائی عریانیت اور دروغ بیانی کو وہ پھیلا رہا ہے اس کا حساب نہیں‘پر ایوان اقتدار میں براجمان افراد اس پر سنسرشپ لگانے سے کتراتے ہیں اور نہ ہی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں اس ضمن میں لب کشائی کرتی ہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
نہ تیری دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
کچھ یادیں پشاورکی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
پوسٹنگ ٹرانسفر میں سیاسی مداخلت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ ایران مخاصمت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
اہم قومی اور عالمی خبروں پر ایک نظر
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکن لابی کیسے بنتی ہے
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سنکی صدر
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
قارئین کی فرمائش پر
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ