یہ ٹانک کو کیا ہو گیا ہے جہاں تک ہماری یاداشت کا تعلق ہے ٹانک تو کبھی بھی امن عامہ کے لحاظ سے اتنا ڈسٹرپ نہ تھا کہ وہاں کسی حکومت کو کرفیو لگانے کی نوبت پڑی ہو گو کہ ٹانک جنوبی وزیرستان کے دہانے پر واقع ہے پر امن عامہ کے لحاظ سے وہ ہمیشہ پر امن رہا ہے یہ شہر سیاسی لحاظ سے مفتی محمود صاحب کا گڑھ تھا اور اس کے زیادہ تر باسی مسعود قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں گو کہ سرائیکی سپیکنگ عوام کی ایک بڑی تعداد بھی اس میں بستی ہے یہ وہ علاقہ ہے کہ جہاں 1977ء کے عام انتخابات میں مفتی محمود صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کو قومی اسمبلی کے الیکشن میں ہرایا تھا‘ ٹانک کا شمار اس وقت تک خیبر پختونخوا کے ان چند اہم اور سیاسی و انتظامی طور پر حساس سب ڈویژنوں میں ہوتا تھا کہ جب تک اسے ضلع کا درجہ نہیں دیا گیا تھا‘ دوسرے سب ڈویژنوں کے نام تھے ہنگو‘مانسہرہ‘ چارسدہ اور نوشہرہ یہ سب اب اضلاع بن چکے ہیں۔جے یو آئی کے رہنما حافظ حسین احمد کا شمار کسی زمانے میں مولانا فضل
الرحمان صاحب کے دست راست ساتھیوں میں ہوتا تھا اگلے روز وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں‘وہ ایک عرصے سے صاحب فراش تھے ان کا تعلق بلوچستان سے تھا‘ ایک لمبے وقت تک وہ جے یو آئی کے ترجمان بھی تھے ان کی رحلت سے بلوچستان میں جے یو آئی یقیناً ایک تجربہ کار سیاسی شخصیت سے محروم ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں خصوصی اینٹی کرپشن ہاٹ لائن کا قیام ایک نہایت ہی اچھا اقدام ہے۔طورخم بارڈر کھل تو گیا ہے پر اس مسئلہ کا مستقل حل درکار ہے کیونکہ ایک عرصے سے طورخم کے بارڈر پر تعنیات پاکستان اور افغانستان کے سکیورٹی عملے کی آئے دن بات بات پر چپقلش ہوتی ہے‘ جو اب ایک مستقل درد سر کی صورت اختیار کر چکی ہے اس
معاملے کو جتنا سنجیدہ لینا ضروری ہے اتنا سنجیدہ نہیں لیا جا رہا۔وزارت خارجہ اور داخلہ دونوں کو متعلقہ افغانستان کے حکام کے ساتھ اعلیٰ سطح پر گفت و شنید کر کے اس کا کوئی ٹھوس حل نکالنا ہو گا۔ خیبر پختونخوا میں ٹریفک پولیس نے بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکل چلانے والوں کے خلاف جو کریک ڈاؤن شروع کیا ہوا ہے وہ قابل تعریف ہے پر یہ موثر اسی صورت ہو سکتا ہے اگر بغیر ہیلمٹ موٹر سائکل چلانے والوں کا ڈرائیونگ لائسنس بھی کینسل کیا جائے اور ان کا موٹر سائیکل بحق سرکار ضبط کیا جائے‘اگر اس ضمن میں قانون سازی درکار ہے تو یہ صوبائی اسمبلی اس معاملے میں میں اپنا کردار اداکرے۔ توشہ خانہ کے مسئلے کو نہ جانے مسئلہ کشمیر کیوں بنا دیا گیا ہے جو حل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا‘سیدھی سی بات ہے متعلقہ حکام قوم کو بتائیں کہ 1947ء سے لیکر اب تک ہمارے جن حکمرانوں کو بیرون ملک دوروں کے دوران جو جو تحائف ملے ان کی تفصیل کیا ہے؟ ان کے ڈسپوزل کے بارے میں قوانین کیا کہتے ہیں اور کن کن حکمرانوں نے ان قوانین پر عمل نہیں کیا اور کن حکمرانوں نے قوانین کی پاسداری کی ہے؟۔