سنکی صدر

ابھی کل ہی ہم نے اپنے اس کالم میں صدر ٹرمپ کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ سنکی یعنی whimsical ہیں اس کا تازہ ترین ثبوت ان کی یوکرائن صدر سے حالیہ ملاقات ہے جو جھگڑے کی صورت اختیار کر گئی اور چونکہ اسے کیمرے کی آ نکھ نے ریکارڈ کیا تھا وہ دنیا بھر کے لوگوں نے دیکھی یہ سوال لاحاصل ہے کہ پولیس اور دارالعلوم حقانیہ کی سکیورٹی کے باوجود بمبار کیسے داخل ہوا اور اس نے گزشتہ جمعہ کے دن وہاں  حملہ کیسے  کیا‘دارالعلوم حقانیہ میں دھماکے سے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اس قسم کے دہشت گردی کے واقعات کا تدارک   صرف ان کی پلاننگ کی سٹیج پرہی انہیں   ناکارہ  بنا کر اور مجرموں کو گرفتار کر کے ہی  کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایک مرتبہ  جب خودکش بمبار  بم سے لدی ہوئی جیکٹ پہن لیتاہے  تو پھر اس کو اپنے آپ  کو  نقصان پہنچائے بغیر  کسی بھی شخص  کا ان کو  پکڑنا محال ہوتا ہے اس میں تو کوئی دو آ راء  ہوہی نہیں سکتیں   کہ کسی بھی خودکش دھماکے کی تیاری میں ایک سے زیادہ افراد کا ہاتھ ہوتا ہے اس کی پلاننگ ایک  مقام پرہوتی ہے جیکٹ میں بارودی مواد کو نصب کسی اور جگہ کیا جاتاہے۔  پھر خودکش بمبار کو جائے وقوعہ پر پہنچانے کی ڈیوٹی کسی اور فرد کی لگائی  جاتی ہے خودکش بمبار کو جائے وقوعہ تک لے جانے کے واسطے ٹرانسپورٹ کا کام کسی اور فرد کے سپردہوتا ہے۔عالمی ادارے  اقوام متحدہ کی تشکیل نو وقت کا اہم تقاضا ہے‘کیونکہ نہ اسرائیل فلسطین میں اپنی چیرہ دستیوں سے باز آ رہا ہے اور نہ بھارت کشمیر میں اور نہ امریکہ تائیوان اور یوکرائن کی بالترتیب چین اور روس کے خلاف ہلہ شیری کرنے سے اور اسرائیل اور امریکہ کے یہ وہ کام ہیں کہ جو تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں‘ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک پر تو اعتبار نہیں کہ وہ اقوام متحدہ کو کمزور ہونے سے بچانے کے لئے اپنا کوئی کردار ادا کریں البتہ چین اور روس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے اس کو مضبوط اور با اثر بنانے کے لئے ضروری اقدامات اٹھائیں اس کے لئے سفارتی محاذ پر چین اور روس اپنے ہمنوا ممالک کے اشتراک عمل سے ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کر کے اس کے منشور کو ری وزٹ کر سکتے ہیں اور اس میں ضروری اصلاحات لاکر اس کو سیاسی اور انتظامی طور پر مضبوط کر سکتے ہیں ورنہ خدشہ یہ ہے کہ یہ ادارہ بھی لیگ آف نیشنز کی طرح غیر موثر ہو کر اسکی طرح اپنی موت نہ مر جائے باوجود اس کی بعض کمزوریوں کے زمانہ امن میں اقوام متحدہ نے افریقہ اور دیگر بر اعظموں میں اپنے امن مشنز بھیج کر کئی ممکنہ جنگوں کو پھیلنے سے روکا ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں کھانے پینے کی چیزوں کے قحط اور جان لیوا بیماریوں کی وباؤں کو روکنے کے لئے ضروری طبی امداد کا بندوبست کیا ہے جوقابل تعریف ہے۔
 کسی زمانے میں برصغیر میں آباد پارسی دولت مند طبقہ جن شہروں میں آ باد تھے مثلاً کراچی‘ بمبئی یا کلکتہ تو وہاں جگہ جگہ انہوں نے عوام کے لئے ہسپتال ڈسپنسریاں اور سکول کھول رکھے تھے اور وہ حاجت مند لوگوں کی مختلف انداز اور طریقہ کار سے مالی امداد بھی کیا کرتے تھے عوامی خدمت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا وہ اپنے اللوں تللوں پر کم اور رفاعی اداروں پر زیادہ خرچ کرتے تھے اس لئے تاریخ کی کتابوں میں آج بھی ان کا نام زندہ جاوید ہے۔ ان چند ابتدائی  کلمات کے بعد ہم اپنے قارئین  کی خدمت میں وہ اقوال پیش کریں گے کہ جو علم کا خزانہ ہیں اور ہر انسان کے واسطے مشعل راہ۔ سب سے بڑی ثروت عقل و دانش ہے اور سب سے بڑی نادانی حماقت اور بے عقلی‘سب سے بڑی وحشت غرور و خود بینی ہے‘ ذلت اٹھانے سے بہتر ہے کہ تکلیف اٹھاؤ جب تک تمہارے نصیب یاور ہیں تمہارے عیب ڈھکے رہیں گے‘  جب اختیارات زیادہ ہوتے ہیں  تو خواہشات کم ہو جاتی ہیں جب تک خوب بھوک نہ لگے کھانا نہ کھاؤ۔ جسے قریبی چھوڑ دیں اسے بیگانے مل جاتے ہیں۔