غریبی میں نام پیدا کر

شاعر مشرق کا کہنا ہے کہ
میرا طریق امیری نہیں غریبی ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر 
ہم قرون اولیٰ کی بات نہیں کر رہے ماضی قریب کی ہی بات کرلیتے ہیں قائد اعظم اور ماؤ زے تنگ ایسے دو لیڈر گزرے ہیں کہ قناعت کی زندگی ان کا شیوہ تھا ان کی زیر صدارت جو اجلاس ہوا کرتے ان کے شرکاء کی خاطر تواضح سادہ سبز چائے سے کی جاتی نہ کہ سیون سٹارز ہوٹلوں سے منگوائے گئے snacksسنیکس سے‘کہ جن پر ہر ماہ لاکھوں روپے اٹھ جاتے ہیں‘ شمالی ویت نام کے صدر کے آ فس کا فرنیچر بانسوں کا بنا ہوا تھا‘ غلام اسحاق خان اس ملک کی اہم ترین پوسٹوں پر فائز رہے‘ پر  وہ اس موروثی اراضی میں ایک انچ کا اضافہ نہ کر سکے جو ان کو اپنے والد سے ترکہ میں ملی تھی‘ سردار عبدالرب نشتر کے  پاس  الیکشن لڑنے کے پیسے نہ تھے سو  ان کو پشاور میں واقع اپنا گھر فروخت کرنا پڑا تھا‘ لیاقت علی خان کا اپنا کوئی ذاتی مکان نہ تھا‘سو ان کی وفات کے بعد  ان کی اہلیہ کے نان نفقہ اور رہائش کا بندوبست اس طرح کیا گیا کہ ان کو بیرون ملک پاکستان کا سفیر بنا کر بھیجا گیا‘ انگلستان کے وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ اور دفاتر  کو دیکھئے اور پھر ذرا وطن عزیز کے حکمرانوں کے محل نما گھروں اور دفاتر کا اس سے موازنہ کیجیے تو آپ کو آسمان اور زمین کا فرق نظر آء ے گا‘اسراف اور قناعت میں بڑا فرق ہے‘انگلستان کی سابقہ ملکی الزبتھ کے شوہر پرنس  فلپس صاف گو انسان تھے ایک مرتبہ جب وہ اسلام آباد کے دورے کے دوران ایوان صدر گئے اور وہاں چھتوں سے لٹکتے ہوئے قیمتی فانوس اور  ایوان صدر میں موجود فرنیچر کو دیکھا تو بول اٹھے کہ اب ہمیں پتہ چلاہے کہ  آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرضے کہاں خرچ ہوتے ہیں اس سے پیشتر جب ان کو اسلام آباد کے ائر پورٹ پر  خوش آمدید کہنے کے لئے فارن آفس کے پروٹوکول آفیسر ایک لمبی چوڑی آٹھ دروازوں والی گاڑی لے گئے تو گاڑی میں بیٹھتے ہوئے انہوں نے اس پروٹوکول افسر سے کہا حیرت ہے آپ لوگ آج کل بھی اس قسم کی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں جن کا استعمال ہم نے تو ایک عرصہ ہواچھوڑ  دیا ہے‘ انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے charity begins at homeیعنی صدقہ گھر سے شروع ہوتا ہے  اور عربی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ رعایا ہمیشہ بادشاہ کا چلن اپناتی ہے لہٰذا قناعت کا مظاہرہ سب سے پہلے ارباب اقتدار کو کرنا ہوتا ہے۔ امام خمینی سے ان کے قریبی دوستوں نے کہا کہ وہ اپنے بڑے بیٹے کو آ یت اللہ  منتخب کروا لیں تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں نے اسے ایک دن قضا نماز پڑھتے دیکھا ہے ان کے اس صاحبزادے کی جب رحلت ہوئی تو ان کا ذاتی بینک بیلنس پاکستانی کرنسی کے مطابق صرف ذ48 روپے تھا ان کا ایک ملازم روزانہ اس محلے کے ایک کونے میں واقع قصاب کی دکان سے آدھا کلو گوشت خرید کر لاتا‘ ایک دن از راہ مذاق اس قصاب نے اسے کہا یار کسی دن ایک کلو گوشت بھی لے جایا کرو‘اس نے جب امام خمینی سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے اسے کہا کہ تم اسے کہہ دیتے کہ ہم کھانے پینے پر اتنا ہی خرچ کرتے ہیں کہ جتنا  خرچہ ایک عام ایرانی افورڈ کر سکتا ہے۔
وطن عزیز کی سڑکوں پر موٹر سائیکلوں کے حادثات کے باعث روزانہ درجنوں ہلاکتیں ہو رہی ہیں شاذ ہی کوئی ہیلمٹ پہن کر موٹر سائیکل چلاتا ہو ٹریفک پولیس نے موٹر سائیکل چلانے والوں کو لگتا ہے کہ جیسے کھلی چھٹی دے رکھی ہو کہ وہ سڑکوں پر ون ویلنگ بھی کرتے پھریں والدین بھی اپنے بچوں کو بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے سے منع نہیں کرتے اس لئے روزانہ کئی موٹر سائیکل سوار یا تو ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بن رہے ہیں اور یا بھر جسمانی طور پر معذور ہو رہے ہیں۔ مقننہ کو فوراً سے پیشتر قانون میں ترمیم کر کے اس ضمن میں سخت قوانین پر مشتمل بل پاس کرنا ہو گا اور ٹریفک پولیس کو موٹر سائیکل بغیر ہیلمٹ چلانے والوں کو نکیل ڈالنا ہو گی اور اگر کوئی جواں سال لڑکے کو بغیر ہیلمٹ پکڑا جائے تو اس کے والد یا سربراہ کے خلاف بھی پولیس پرچہ کاٹے‘کیا ہی اچھا ہو اگر ان کا موٹر سائیکل بھی بحق سرکار ضبط کر لیا جائے اور ان کا ڈرائیونگ لائسنس دس سال کے لئے کینسل کر دیا جائے۔ آج وطن عزیز کے کئی شہر ایسے ہوں گے کہ جن میں وہاں کے کسی میونسپل ادارے کے پاس کوئی فعال اور قابل اعتبار فائر بریگیڈ سسٹم موجود ہو کہ جو کسی جگہ ناگہانی لگی آ گ کو بجھانے کی صلاحیت رکھتا ہو لامحالا متعلقہ حکام کو افواج پاکستان یا کنٹونمنٹ بورڈ کے فائر بریگیڈ سے مدد مانگ کر ان کے فائر بریگیڈ پر تکیہ کرنا پڑتا ہے یہ یقیناً ایک بہت بڑا افسوسناک امر ہے۔کسی زمانے میں اٹلی کے جنوب میں Pompeiنامی ایک شہر آ باد تھا جسے آپ دولت کی فراوانی اس کے باسیوں کی پرتعیش زندگی بودو باش اور رھن سہن کے معیار کو آج کے لاس اینجلس کے  برابر سمجھ سکتے ہیں پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ 79بعد  از مسیح میں  اس شہر کے عقب میں واقع  ایک کوہ آتش فشاں پھٹا اور اس سے بہنے والے لاوے نے اس شہر کو زمین بوس کر دیا اور وہ صفحہ ہستی  سے ایسے مٹ گیا کہ جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں وہاں کے باسی زندہ درگور ہو گئے جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں‘ تقریباً دو ہزار سال بعد  1748میں   جب محکمہ آ ثار قدیمہ والوں  نے اس شہر کا کھوج لگانے کی کوشش میں اس علاقے کی کھدائی کی تو اس تباہ شدہ شہر کے آثار اجاگر ہوئے۔ آج دنیا بھر سے اٹلی کی سیاحت پر آ ئے ہوئے سیاح اس شہر کے کھنڈرات دیکھنے کے واسطے پامپیائی کا دورہ کرتے ہیں‘کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تاریخ کی کتابوں کے پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ جب کبھی بھی  کسی قوم  نے گناہ اور عیاشی کی زندگی گزارنی شروع کی تو وہ عذاب الہٰی کا شکار ضرور ہوئی۔