ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ ساکہیں جسے

لالہ ایوب کے چلے جانے کے بعد خیبر پختونخوا کی حد تک کم از کم ہاکی یتیم ہو گئی ہے جب تک وہ بقید حیات تھے پشاور چھاؤنی میں واقع ان کا گرین ہوٹل خیبر پختونخوا کے صوبے بھر کے ہاکی سے جڑے ہوئے ہر فرد کی آماجگاہ تھا‘رات دن یہ ہوٹل صوبے کے ہاکی کے کھلاڑیوں اور صوبے کے مختلف اضلاع کی ہاکی کی تنظیموں کے انتظامی اراکین سے کھچا کھچ بھرا رہتا تھا لالہ ایوب نے صوبے کی ہاکی کی خصوصاً اور ملک کی ہاکی کی عموماً جتنی خدمت کی ہے اسکی مثال نہیں ملتی خیبر پختونخوا میں ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد ہاکی کو فروغ دینے والا کوئی ان جیسا دوسرا شخص پیدا ہوا‘ان کا اوڑھنا بچھونا ہاکی تھا ان کو اس گیم سے ایک والہانہ عشق تھا بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ لالہ ایوب انٹرنیشنل گریڈ ون کے امپائر بھی تھے اور جس پاکستان کی ہاکی ٹیم نے 1960ء میں روم اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا تھا اس کی سلیکشن میں بھی ان کا کافی حد تک ہاتھ تھا لالہ ایوب کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ سپین کی ہاکی فیڈریشن کی درخواست پر حکومت پاکستان نے ان کو ایک سال کے لئے سپین بھی بھیجا تھا کہ وہ سپین کی ہاکی ٹیم کی کوچنگ کریں وہ پشاور صدر کے علاقے کی 
ہر دلعزیز شخصیت تھے اور اپنے علاقے کے ہر فرد کے واسطے گرین ہوٹل میں ان کا دفتر چوبیس گھنٹے کھلا رہتا اور عوام کے مسائل کا حل نکالنا ان کا شعار تھا ان کی رحلت سے اگر ایک طرف صوبے کی ہاکی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تو دوسری طرف پشاور صدر کے باسی صحیح معنوں میں ایک عوامی لیڈر سے محروم ہو گئے ان کے دفتر کا دروازہ جس کسی نے بھی کھٹکھٹایا وہ خالی جھولی کبھی مایوس نہیں گیا‘ ان کے بیٹوں نے بھی عوام کی خدمت کا یہ مشن جاری رکھا‘ خاص طور پر سید عاقل شاہ جو ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں پر اصل میں ان کی پہچان کھیلوں کے حوالے سے ہے گو کہ وہ ایم پی اے کے علاوہ صوبائی وزیر بھی رہے تاہم یہاں بھی انہوں نے عوامی خدمت کے ساتھ ساتھ کھیلوں کی ترویج کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھی‘ وہ کافی لمبے عرصے تک اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر رہے‘ صوبہ بھر میں کھیلوں کی ترویج کے لئے ان کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں‘انہوں نے سیاست بھی کی اور کھیلوں کی سرپرستی بھی‘ لیکن کبھی بھی سیاست میں کھیل اور کھیلوں میں سیاست لے کر نہیں آئے یہی وجہ ہے کہ اہل پشاور آج بھی ان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ سید عاقل شاہ کے دور میں بھی گرین ہوٹل کھیل اور کھلاڑیوں کے حوالے سے اور خاص کر کھیلوں کی تنظیموں کے حوالے سے اسی طرح آباد رہا جس طرح لالہ ایوب کے زمانے میں آباد تھا۔