کرکٹ کے ہر دلعزیز کمنٹریٹرز

یہ اس زمانے کا ذکر ہے کہ جب ٹیلی ویژن کا ظہور وطن عزیز میں نہیں ہوا تھا اور کرکٹ میچوں پر رننگ کمنٹری صرف ریڈیو  پاکستان پرہوتی تھی  یوں کہہ لیجیے یہ زمانہ 1950 ء سے لے کے 1966ء کے عرصے پر محیط  تھا‘ عمر قریشی اور جمشید مارکر کی جوڑی ریڈیو پاکستان سے کرکٹ میچوں پر کمنٹری نشر کرتی‘عمر قریشی تو بنیادی طور پر انگریزی زبان کے صحافی تھے‘ جمشید مارکر کا تعلق کراچی کی ایک پارسی فیملی کے ساتھ تھا  جو بعد میں پاکستان کی فارن سروس میں  شامل ہو گئے تھے اور وہ کئی ممالک میں پاکستان کے سفیر بھی رہے‘ انہوں نے اپنے سفارتی سفر پر ایک کتاب بھی لکھی جس کو  سفارتی حلقوں میں   بے حد پذیرائی حاصل ہوئی‘یہ دونوں کمنٹریٹرزغضب کی انگریزی بولتے‘ان کو انگریزی زبان پر مکمل عبور تھا‘ ہماری جنریشن سے تعلق رکھنے والے طالب علم ان کی کمنٹری سن کر اپنا انگریزی زبان کا تلفظ درست کرتے تھے جس طرح کسی دور میں انگلستان کے جان ارلٹ کا شمار انگلستان کے بہترین کمنٹریٹرز  میں ہوتا تھا بالکل اسی طرح عمر قریشی اور جمشید مارکر کو وطن عزیز کے کرکٹ کے شیدائی بڑے شوق سے سنا کرتے‘ یہ بات بلا خوف تردید کی جا سکتی ہے کہ وطن عزیز میں عمر قریشی اور جمشید  مارکر جیسے کرکٹ کمنٹریٹرز پھر پیدا نہیں ہوئے‘ ٹیلی ویژن کے ظہور کے بعد عمر قریشی نے چند میچوں کی ٹی وی سے بھی رننگ کمنٹری کی‘  کرکٹ کمنٹری کا وہ ایک جو کلچر ریڈیو پر عمر قریشی اور جمشید مارکر کی جوڑی نے بنایا تھا وہ ریڈیو پر یہ سلسلہ بند ہونے سے دم توڑ گیا‘ یہ تو خیر ہم نے ریڈیو پاکستان  کے زمانہ عروج کے ایک محدود پروگرام کی بات چھیڑی ہے‘ اسی طرح کے کئی دیگر نشریاتی  پروگراموں نے عوامی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دئیے تھے‘جو اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں‘ ریڈیو پاکستان سے قومی سطح کے اردو زبان میں مشاعرے ہوا کرتے تھے جو اب ایک عرصے سے نہیں ہو رہے۔ ہر گھنٹے بعد شکیل احمد‘ مسعود تابش اور انور بہزاد کی آ واز میں خبریں نشر  ہوا کرتی تھیں جو بے حد مقبول عام تھیں۔