الفاظ کے گھاؤ

چشم فلک نے دوسری جنگ عظیم سے لے کر تا دم تحریر اگر روزویلٹ آ ئزن ہاور‘ڈیگال‘مارشل ٹیٹو‘ ونسٹن‘چرچل‘ سٹالن‘ فیلڈ مارشل رومیل‘فیلڈ مارشل منٹگمری اور جنرل میک آرتھر ماؤزے تنگ اور چو این لائی جیسے معاملہ فہم دور اندیش اور سنجیدہ سیاسی اور فوجی نابغے دیکھے  تو دوسری طرف ہٹلر‘ اور ٹرمپ جیسے منہ پھٹ قسم کے سیاسی رہنماؤں کو بھی دیکھا‘سوویٹ یونین کے سابق رہنما خروشیف بھی ایک نہایت لاابالی قسم کے انسان تھے‘ ایک مرتبہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو خطاب کرتے ہوئے جوش خطابت میں اس وقت کے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری ڈاگ ہیمر شولڈ کو کہ جو نہایت نفیس انسان تھے‘ کتا کہہ بیٹھے‘ اگر ڈاگ ہیمر شولڈ چاہتے تو وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تعینات سارجنٹ ان آ رمز کو کہہ کر انہیں زبردستی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے قانونی طور پر باہر نکلوا سکتے تھے‘ پر وہ اس واقعے کو پی گئے بعد میں جب ان سے کسی صحافی نے پوچھا کہ انہوں نے کیوں سوویٹ یونین کے سربراہ کے خلاف اپنا یہ قانونی حق استعمال نہیں کیا تو انہوں نے کہا شاید میری پرائمری ایجوکیشن اس سے بہترہوئی تھی۔ ٹرمپ کا بھی اپنی زبان اور گفتار پر کنٹرول نظر نہیں آ رہا اگر وہ اسی روش پر چلتے رہے تو کوئی دن جاتا ہے کہ اس کی زبان سے ایسے الفاظ نکل سکتے ہیں جو اس کے اور امریکہ دونوں کے لئے باعث خفت بن سکتے ہیں‘یہاں پرہمیں دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے نیم پاگل رہنما ہٹلر کی انگلستان کے وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کے خلاف دشنام طرازی بھی یاد آ رہی ہے‘چرچل سے جب اخبار نویس خاموشی کی وجہ پوچھتے تو وہ ان کو یہ کہتے کہ لگتا ہے ہٹلر کی پرائمری ایجوکیشن ٹھیک نہیں ہوئی‘ ان کا یہ ایک جملہ ہٹلر کی ان کے خلاف تمام دشنام طرازی کو دھو ڈالتا۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سیاست دانوں کو ا اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اپنی تقاریر میں الفاظ کے چناؤ میں بہت  احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کہ بقول کسے تلوار سے لگے جسم پر زخم تو وقت کے ساتھ مندمل ہو جاتے ہیں پر الفاظ سے لگے گھاؤ کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوتے۔گزشتہ روزوزیر اعظم شہباز شریف کی چینی کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کے حکم سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں چینی کی ذخیرہ اندوزی ہوئی ہے جن جن پولیس تھانوں کے دائرہ عمل کے اندر چینی کو گوداموں میں ذخیرہ کیا گیا ہے اس طرح یہ فوڈ انسپکٹر کس مرض کی دوا ہیں جب ان کے دائرہ اختیار میں چینی ذخیرہ کی جاتی رہی تو وہ کیوں خواب خرگوش میں مبتلا تھے؟ملک میں چینی کا یہ بحران متعلقہ اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔اب آتے ہیں فلمی دنیا سے جڑی چند دلچسپ  پادوں کی طرف۔کے آصف کا شمار برصغیر کے چند قابل ترین فلم سازوں میں ہوتا تھا، اور نوشاد علی کا موسیقاروں میں 1960 ء کی دہائی میں مغل اعظم نامی فلم بن رہی تھی جس میں پشاور شہر کے دو سپوت دلیپ کمار اور پرتھوی راج بالترتیب شہزادہ سلیم اور اکبر اعظم کے کردار ادا کر رہے تھے‘کے آصف نے نوشاد علی سے کہا کہ وہ استاد بڑے غلام علی خان کا ایک راگ اس فلم کے لئے  ضرور ریکارڈ کروائیں  اب مسئلہ یہ تھا کہ استاد بڑے غلام علی خان فلموں کے لئے بالکل نہیں گاتے تھے ان کو فلم مغل اعظم کے لئے راگ گانے کے لئے تیار کرنا مشکل کام تھا نوشاد علی پر جب  آصف کا ازحد پریشر بڑھا تو ان کو یہ ترکیب سوجھی کہ ایسا کام کیا جائے  کہ استاد غلام علی خان مان جائیں اور کے آصف بھی خفا نہ ہوں چنانچہ انہوں نے استاد بڑے غلام علی خان کو اعتماد میں لے کر ان سے کہا کہ وہ کے آ صف کو ایک جرگے کی شکل میں ان کے پاس لے کر اۂیں گے اور آپ سے راگ ریکارڈ کرنے کا تقاضا کریں گے  بس آپ ہم  سے فلم میں راگ گانے کا اتنا بڑا معاوضہ طلب کر دیں   کہ جسے  سن کر کے آ صف  از خود ہی اپنے اس مطالبے سے دستبردار ہو جائیں اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی  چنانجہ جب نوشاد علی اور کے آصف دونوں استاد غلام علی خان کی خدمت میں پیش ہوئے تو استاد غلام علی خان نے کہا کہ چونکہ آپ جرگے کی شکل میں آئے ہیں تو میں آپ کی فرمائش کو رد نہیں کرتا پر میری بھی ایک شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ  آپ کو مت کے لئے مجھے 25000  روپے  ادا کرنے ہوں  گے‘یاد رہے کہ اس دور میں محمد رفیع اور لتا جیسے گلوکار ایک  گانے کا 3000 روپے چارج کیا کرتے تھے‘ استاد بڑے غلام علی خان کی یہ ڈیمانڈ سنتے ہی کے آصف نے کہا خان صاحب یہ تو آپ کے ایک بول کی قیمت ہے مجھے منظور ہے اس طرح استاد بڑے غلام علی خان راگ گانے کے لئے پھنس گئے اور ان کا راگ فلم کے لئے نوشاد علی نے ریکارڈ کیا وہ راگ مغل اعظم میں شہزادہ سلیم اور انارکلی کے ایک رومانوی سین میں بیک گراؤنڈ میں  فلمایا گیا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس دور میں کے آ صف جیسے صاحب ذوق  مردم شناس اور فن اور فنکاروں کے قدر دان   ہدایت کار ہوا کرتے تھے جو فن اور فنکار کی عزت اور منزلت جانتے تھے۔فلم بینوں کی معلومات کے واسطے عرض  ہے کہ  بنگال سے تعلق رکھنے والے شہرت یافتہ ناول نگار کے  ناول دیوداس ہر برصغیر میں مختلف ادوار میں  چار فلمیں تخلیق ہوئی ہیں‘ ایک 1935ء  میں جس میں کندن لال سہگل نے دیوداس کا کردار نبھا یا  تھا‘دوسری فلم 1955ء میں جس میں دلیپ کمار نے یہ رول ادا کیا‘ تیسری فلم 1958ء میں جس میں حبیب نے یہ کردار ادا کیا اور چوتھی فلم  1990ء کی دہائی میں بنی جس میں یہ رول شاہ رخ  خان نے ادا کیا یاد رہے کہ دلیپ کمار اور شاہ رخ خان  دونوں کا تعلق پشاور سے تھا‘ فلمی مبصرین کی  متفقہ رائے  یہ ہے کہ اس کردار کو جس عمدہ اداکاری سے دلیپ نے ادا کیا وہ باقی تین اداکار نہیں کر سکے‘ شاہ رخ خان نے یہ کہہ کر اس حقیقت کا اعتراف یوں کیا ہے  کہ مجھے یہ رول ادا نہیں کرنا چاہیے تھا کہ دلیپ صاحب کی ایکٹنگ کے معیار کو کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ 

ایک عام محب وطن پاکستانی کی سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ افغانستان کاہمارے ساتھ 1947ء سے رویہ متواتر پڑوسیوں جیسا نہیں رہا‘ اس کے باوجود وطن عزیز کے بعض باسی کابل کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ کیوں رکھتے ہیں‘ حالیہ ٹرین واقعے کو جس انداز میں بھارتی میڈیا نے اچھالا ہے وہ اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی افغانستان کے حکمران بھارت کی شہ پر پاکستان کی بیخوں میں پانی دے رہے ہیں جس طرح نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ نے ہوم لینڈ سکیورٹی بنا کر غیر ملکیوں کا امریکہ میں دخول مشکل بنا دیا تھا‘ وقت آ گیا ہے کہ وطن عزیز کے ارباب بست و کشاد بھی پاکستان میں افغانیوں کے داخلے کو ایک فول پروف ویزا میکنزم کے تابع کر دیں تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔نہ افغانی یہاں آ سانی سے آ سکیں گے اور نہ وطن عزیز کا امن عامہ ان کے ہاتھوں بربادہوگا‘اس ضمن میں اگلے روز بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے جو مشترکہ کانفرنس کی ہے اس کے مندرجات میں جو حقائق موجود ہیں ان کو ہر پاکستانی اگر ذہن نشین کر لے تو ٹرین  واقعہ کے پیچھے چھپے ہوئے ہاتھ آشکارا ہو جائیں گے۔ ض سیاسی مبصرین جب آج کل وفاق اور صوبوں کی بھاری بھر کم کابینائیں  دیکھتے ہیں تو ان کو اس بات پر مشکل سے یقین آتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب  قیام پاکستان کے فوراً بعد اس ملک  کے بعض صوبوں میں وزراء کی تعداد حیرت انگیز حد تک کم ہوتی تھی‘پر اس کے باجود امور مملکت خاطر خواہ طریقے سے چلتے تھے‘اس جملہ معترضہ کے بعد تازہ ترین  حالات حاضرہ کے اہم ایشوز کا ہلکا سا تجزیہ بے جا نہ ہو گا۔تنگ آ مد بجنگ آ مد انجام کار امریکہ کو کئی ممالک بشمول پاکستان کے خلاف امیگریشن کی سخت ترین پابندیا ں لگانی پڑگئی ہیں اب امریکہ جانے کے شوقین افراد آسانی سے امریکہ جانے کا ہوائی جہاز کا ٹکٹ کٹوا نہیں سکیں گے‘ادھر لگ یہ رہا ہے کہ ٹرمپ نے روس کے خلاف انگلستان کے وزیر اعظم کو اپنے جام میں اتار لیا ہے اس سلسلے میں انگلستان کے وزیر اعظم کا تازہ ترین بیان بڑا معنی خیز ہے جس میں انہوں نے یوکرائن اور روس کے تنازعے میں کھل کر یوکرائن کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے