اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

سید فریداللہ شاہ کو خدا بخشے اس ملک کے وہ  ایک سینئر بیوروکریٹ گزرے ہیں جو بڑی اچھی  شہرت کے مالک تھے  انہوں نے ایک مرتبہ ہمیں بتایا  کہ نیا نیا پاکستان بنا تھا اور خیبرپختونخوا جسے اس وقت فرانٹیئر کہا جاتا تھا کی  نئی نئی حکومت  عالم وجود میں آئی تھی جس میں وزراء کی تعداد صرف پانچ  تھی  حکومت کے گاڑیوں کے پول میں وزراء کے استعمال کے واسطے جو گاڑیاں میسر تھیں ان کی تعداد  پانچ تھی ان میں ایک تو وزیر اعلیٰ کے استعمال کیلئے مختص کر دی گئی اب مسئلہ یہ تھا کہ وزراء تھے پانچ اور گاڑیاں میسر تھیں چار‘ چناچہ کابینہ نے یہ فیصلہ کیا کہ جس دن اگر ایک وزیر دورے پر ہوگا تو دوسرا اس دن دفتر میں ہی موجود رہے گا چنانچہ اس طرح انہوں نے ایک سال تک اپنا نظام  پانچ گاڑیوں سے چلایا اور جب ایک سال بعد صوبے کی مالی حالت مستحکم ہوئی تو تب کہیں جاکر پانچویں گاڑی خریدی گئی کہنے کا مقصد یہ تھا کہ قناعت کا یہ عالم تھا  آج بھی کچھ اسی قسم کی قناعت کی ضرورت ہے کہ ملک کا خزانہ خالی ہے اور جب تک ہمیں بیرونی ممالک سے مالی امداد نہ ملے تو ہم امور مملکت چلا نہیں سکتے تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ماضی میں جب بھی کبھی کوئی ترقیاتی منصوبہ قومی بجٹ یا بیرونی امداد سے  بنا تو ا یک خطیر رقم غیر ترقیاتی اخراجات کی نذر کر دی گئی  جیسے کہ افسروں کے استعمال کے واسطے قیمتی گاڑیوں کی خریداری وغیرہ‘ قارئین کو یاد ہوگا وطن عزیز کے ایک سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے یہ حکم دیا کہ بیورو کریسی کے افسران اور سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے مجاز تمام افراد  بڑی گاڑیوں کے بجائے چھوٹی گاڑیوں کا چلن عام کریں تو کس طرح ان کے مخالفین نے ان کے اس حکم کا مذاق اڑایا  اور اس قسم کی مضحکہ خیز باتیں کی گئیں کہ چھوٹی گاڑیوں میں تو ان کی ٹانگیں نہیں سما سکتیں وغیرہ وغیرہ۔ امریکی صدر کی اوٹ پٹانگ باتوں کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے دیکھ کر امریکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کو اندازہ ہو رہا ہے کہ امریکی صدارت کے منصب پر براجمان موجودہ صدر اور ان کے پیشرو صدور میں کس قدر فرق ہے۔

ٹرمپ کی طرح امریکہ کے نائب  صدر وینس نے بھی ابھی تک کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا کہ جس سے ان کی انفرادیت  ثابت  ہوتی ہو‘وہ ٹرمپ کی کاربن کاپی نظر آتے ہیں۔ ٹرمپ نے اگلے روز امریکہ میں رہائش اور بزنس کرنے  کے واسطے جس  گولڈ کارڈ سسٹم کے اجرا کا عندیہ دیا ہے اس کے بارے میں اس وقت کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ ابھی اسے کانگریس کی منظوری درکار ہو گی‘ بادی النظر میں  لگتا ہے کہ اس نئے نظام کے ذریعے ٹرمپ امریکہ کی معشیت کو مضبوط کرنے کے واسطے چاہتے ہیں کہ اس میں غیر ملکی انوسٹمنٹ زیادہ ہو‘ نئے نظام میں یقیناً کئی ممالک کے کرپٹ افراد کہ  جن کے پاس اربوں روپے موجود ہیں اپنا دھن امریکا نکال دیں  گے اور وہاں اپنے خلاف  بغیر کسی قانونی کاروائی بے خوف خطر اللے تللے اڑائیں گے   ٹرمپ چونکہ خود بھی اس قسم کا سرمایہ دار ہے کہ جو زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا ہنر جانتا ہے اور ایلن مسک جیسے سرمایہ داروں کا سنگ بھی  حاصل ہے  اس سے اسی قسم کے فیصلوں کی ہی توقع کی جا سکتی ہے‘ طورخم  کا  پاک افغان  بارڈر ہمارے واسطے ایک مستقل درد سر بن گیا ہے وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ دونوں اس کا مستقل حل نکالنے میں ضروری سنجیدگی کا مظاہرہ  نہیں کر رہے بات بڑی سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک حکومت وقت افغانیوں کے پاکستان آنے جانے کے لئے ایک ٹھوس اور فول پروف ویزا میکینزم مرتب نہیں کرتی کہ جس کے تحت کوئی بھی افغانی پاکستان میں بغیر ویزا کے داخل نہ ہو سکے اور پھر ویزا کی معیاد ختم ہونے کے بعد واپس اپنے وطن نہ چلا جائے طورخم والا در د سر ختم نہ ہوگا ح‘کومت کو پتہ ہونا چاہیے کہ جو افغانی ویزا پر ایک خاص مدت کے واسطے پاکستان میں داخل ہوا ہے وہ ویزے کی معیاد ختم ہونے کے بعد وطن واپس جا چکا ہے  طورخم پر بارڈر مینجمنٹ بھی حکومت کی خصوصی توجہ کی مستحق ہے کہ جس کو وزارت  خارجہ کے حکام اہمیت دیں تو بہتر ہو گا کیونکہ آئے دن وہاں پاکستان اور افغان سکیورٹی اہلکاروں کی معمولی معمولی جھڑپوں سے دنیا میں غلط سگنل جا رہے ہیں۔۔۔۔۔