وہ پشاور کہاں کھو گیا ہے کہ جب ہر سال موسم بہار کی آمد پر ریڈیو پاکستان پشاور کی پرانی عمارت کے سبزہ زار میں چشن بہاراں کے نام سے ایک بہت بڑا اور خصوصی پروگرام منعقد ہوتا تھا جس میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی تھی ایک شب صرف کلاسیکی موسیقی کے واسطے مختص ہوتی دوسری ہلکی پھلکی light music اور تیسری فوک folk موسیقی کیلئے‘ ان محافل میں ملک بھر سے نامور گلوکار شرکت کرتے تھے اور وہ لائیو برائے راست براڈ کاسٹ بھی کی جاتیں ان محافل میں ہم نے استاد امانت علی‘ فتح علی‘نزاکت علی‘ سلامت علی‘ مہدی حسن‘اقبال بانو‘ملکہ موسیقی روشن آ راء بیگم‘ گلنار بیگم‘کشور سلطان‘ عبداللہ جان‘ خیال محمد‘مینا لودھی وغیرہ کا اپنی اپنی اپنی آواز کا جادو جگاتے دیکھا اور سنا ہے نہ جانے اتنے مقبول عام پروگرام کو کیوں متعلقہ حکام نے بند کر دیا۔وہ پشاور کہاں گیا کہ جس میں ایک ریس کورس گراؤنڈ ہوا کرتا تھا جس میں ہر ہفتہ اور اتوار کے روز گھڑ دوڑ کا مقابلہ ہوتا جس میں گھوڑے پالنے والے شوقین افراد اپنے اپنے پالتو گھوڑے ریس جیتنے کے لئے اتارتے‘ ریس دیکھنے کے لئے ہزاروں لوگ ریس کورس گراؤنڈ میں جمع ہوتے گھڑ دوڑ میں شامل ہونے والے گھوڑوں پر شائقین اپنی دانست اور تجربے کی بنیاد پر شرطیں لگاتے کہ ریس میں کون ساگھوڑا فرسٹ آ ئے گا جو لوگ شرط جیت لیتے وہ جیتنے والی رقم جیب میں ڈال کر شام کو خوشی خوشی گھر جاتے اب نہ وہ ریس کورس گراؤنڈ ہے اور نہ گھوڑے‘ بس ان کی یادیں باقی رہ گئی ہیں پشاور شہر کے وسط میں چوک یادگار کا چبوترہ تو ایستادہ ہے پر اب اس چوک میں رات گئے عشا ء کی نماز کے بعد سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے جلسے نہیں کرتیں۔پشاور صدر کے ریلوے سٹیشن کے قریب ڈینزہوٹل ہوا کرتا تھا جو انگریزوں کے زمانے کی یادگار تھا وہ اپنی نوعیت کا ایک علیحدہ قسم کا ہوٹل تھا جس میں شرفا دن کے پچھلے پہر چائے کے کپ کے اوپر آپس میں سنجیدہ قسم کی بحث و مباحث کرنے کے لئے جمع ہوتے اب اس جگہ ایک پلازہ کھڑاہے پشاور صدر کی پرانی نشانیوں میں فلک سیر اور کیپٹل سینما گھر بھی شامل تھے ان کو گرا دیا گیا ہے اور اب وہ بھی قصہ پارینہ بن چکے بالکل اسی طرح کہ جس طرح پشاور شہر میں میٹرو سینما ہاؤس اور جی ٹی ایس بسوں کے معروف اڈے روڈ ویزہاوس کو ختم کر دیا گیا ہے‘ پشاور میں شاہی باغ تو موجود ہے پر اس میں اب فٹبال ٹورنامنٹ نہیں ہوتے ‘ارباب روڈ پشاور صدر میں کتب فروشوں کی دو دکانیں لندن بک ڈپو اور سعید بک بینک کے نام سے ہوا کرتیں جن میں ہر مضمون پر نایاب کتب جو اور کسی بک شاپ پر نہ ملتیں۔ وہاں سے مل جاتیں‘اب نہ سعید بک بینک کا کوئی نشان باقی بچا ہے اور نہ لندن بک شاپ کا کوئی مزہ ہے‘پشاور صدر میں گورا بازار کے نام سے ایک پتلا بازار تھا جس کو آپ لاہور کے انار کلی بازارسے تشبیہدے سکتے تھے شام کے وقت اس بازار میں رش کا ایک عالم ہوتا تھا،نوتھیہ بازار پشاور صدر کے قرب میں ہی واقع ہے اس میں کریم کبابی جو کریموں کبابی کے نام سے مشہور تھا اس کی دکان میں بنے ہوے چپلی کبابوں کا چرچا دور دور تک تھا شنید ہے کہ اس کی وفات کے بعد اس کے ورثا اس کاروبار کو چلا رہے ہیں‘وقت وقت کی بات ہوتی ہے اسی طرح ایک دور ایسا تھا جب قصہ خوانی پشاور میں واقع صابری ہوٹل کے سیخ کبابوں کا چرچا تھا بعد میں سینما روڈ پر واقع جہانگیر ہوٹل اورہوٹل سلاطین میں پکنے والے تکے کبابوں کی جے جے کارہوئی جو اب قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔
وہ پشاور کہاں کھو گیا ہے کہ جب ہر سال موسم بہار کی آمد پر ریڈیو پاکستان پشاور کی پرانی عمارت کے سبزہ زار میں چشن بہاراں کے نام سے ایک بہت بڑا اور خصوصی پروگرام منعقد ہوتا تھا جس میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی تھی ایک شب صرف کلاسیکی موسیقی کے واسطے مختص ہوتی دوسری ہلکی پھلکی light music اور تیسری فوک folk موسیقی کیلئے‘ ان محافل میں ملک بھر سے نامور گلوکار شرکت کرتے تھے اور وہ لائیو برائے راست براڈ کاسٹ بھی کی جاتیں ان محافل میں ہم نے استاد امانت علی‘ فتح علی‘نزاکت علی‘ سلامت علی‘ مہدی حسن‘اقبال بانو‘ملکہ موسیقی روشن آ راء بیگم‘ گلنار بیگم‘کشور سلطان‘ عبداللہ جان‘ خیال محمد‘مینا لودھی وغیرہ کا اپنی اپنی اپنی آواز کا جادو جگاتے دیکھا اور سنا ہے نہ جانے اتنے مقبول عام پروگرام کو کیوں متعلقہ حکام نے بند کر دیا۔وہ پشاور کہاں گیا کہ جس میں ایک ریس کورس گراؤنڈ ہوا کرتا تھا جس میں ہر ہفتہ اور اتوار کے روز گھڑ دوڑ کا مقابلہ ہوتا جس میں گھوڑے پالنے والے شوقین افراد اپنے اپنے پالتو گھوڑے ریس جیتنے کے لئے اتارتے‘ ریس دیکھنے کے لئے ہزاروں لوگ ریس کورس گراؤنڈ میں جمع ہوتے گھڑ دوڑ میں شامل ہونے والے گھوڑوں پر شائقین اپنی دانست اور تجربے کی بنیاد پر شرطیں لگاتے کہ ریس میں کون ساگھوڑا فرسٹ آ ئے گا جو لوگ شرط جیت لیتے وہ جیتنے والی رقم جیب میں ڈال کر شام کو خوشی خوشی گھر جاتے اب نہ وہ ریس کورس گراؤنڈ ہے اور نہ گھوڑے‘ بس ان کی یادیں باقی رہ گئی ہیں پشاور شہر کے وسط میں چوک یادگار کا چبوترہ تو ایستادہ ہے پر اب اس چوک میں رات گئے عشا ء کی نماز کے بعد سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے جلسے نہیں کرتیں۔پشاور صدر کے ریلوے سٹیشن کے قریب ڈینزہوٹل ہوا کرتا تھا جو انگریزوں کے زمانے کی یادگار تھا وہ اپنی نوعیت کا ایک علیحدہ قسم کا ہوٹل تھا جس میں شرفا دن کے پچھلے پہر چائے کے کپ کے اوپر آپس میں سنجیدہ قسم کی بحث و مباحث کرنے کے لئے جمع ہوتے اب اس جگہ ایک پلازہ کھڑاہے پشاور صدر کی پرانی نشانیوں میں فلک سیر اور کیپٹل سینما گھر بھی شامل تھے ان کو گرا دیا گیا ہے اور اب وہ بھی قصہ پارینہ بن چکے بالکل اسی طرح کہ جس طرح پشاور شہر میں میٹرو سینما ہاؤس اور جی ٹی ایس بسوں کے معروف اڈے روڈ ویزہاوس کو ختم کر دیا گیا ہے‘ پشاور میں شاہی باغ تو موجود ہے پر اس میں اب فٹبال ٹورنامنٹ نہیں ہوتے ‘ارباب روڈ پشاور صدر میں کتب فروشوں کی دو دکانیں لندن بک ڈپو اور سعید بک بینک کے نام سے ہوا کرتیں جن میں ہر مضمون پر نایاب کتب جو اور کسی بک شاپ پر نہ ملتیں۔ وہاں سے مل جاتیں‘اب نہ سعید بک بینک کا کوئی نشان باقی بچا ہے اور نہ لندن بک شاپ کا کوئی مزہ ہے‘پشاور صدر میں گورا بازار کے نام سے ایک پتلا بازار تھا جس کو آپ لاہور کے انار کلی بازارسے تشبیہدے سکتے تھے شام کے وقت اس بازار میں رش کا ایک عالم ہوتا تھا،نوتھیہ بازار پشاور صدر کے قرب میں ہی واقع ہے اس میں کریم کبابی جو کریموں کبابی کے نام سے مشہور تھا اس کی دکان میں بنے ہوے چپلی کبابوں کا چرچا دور دور تک تھا شنید ہے کہ اس کی وفات کے بعد اس کے ورثا اس کاروبار کو چلا رہے ہیں‘وقت وقت کی بات ہوتی ہے اسی طرح ایک دور ایسا تھا جب قصہ خوانی پشاور میں واقع صابری ہوٹل کے سیخ کبابوں کا چرچا تھا بعد میں سینما روڈ پر واقع جہانگیر ہوٹل اورہوٹل سلاطین میں پکنے والے تکے کبابوں کی جے جے کارہوئی جو اب قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔