معاشیات کاسادہ سا اصول ہے جو کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ کسی عام آدمی کی سمجھ میں نہ آ سکے ایک ان پڑھ خاتون خانہ بھی جانتی ہے کہ اخراجات آمدنی کے مطابق ہو نے چاہئیں اگر اخراجات آمدنی سے زیادہ ہوں گے تو کسی سے ادھارلے کرہی کچن کا چولہا جلایاجا سکے گا ‘ بزرگ کہہ گئے ہیں اتنے پاؤں پھیلا ؤکہ جتنی چادرہو‘ وطن عزیز کا یہ المیہ رہا ہے کہ ماضی میں ہمارے اکثر حکمرانوں نے قناعت کے بجائے اسراف کا راستہ اپنایا اور اس پر طرہ یہ کہ بیرونی ممالک سے جو قرضے انہوں نے لئے ان کو بھی عام آ دمی کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے غیر ترقیاتی کاموں پر خرچ کیا اور اب حالت یہ ہے کہ ہر پاکستانی سر کے بال سے لے کر پاؤں کے انگوٹھے تک بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ملک کی معاشیات کا دیوالیہ ہو چکا ہے‘سود در سود میں وطن عزیز اس قدر پھنس چکا ہے کہ اس جال سے نکلنا اب جان جوکھوں کا کام ہے‘خدا کرے کہ جس طرح وزیر اعظم صاحب نے وعدہ کیا ہے‘ہمیں آئندہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے‘سادگی اور قناعت کا ملک میں چلن عام کرنے کی صدق دل سے سعی کی ہی نہیں گئی عربی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ رعایا بادشاہوں کا چلن اپناتی ہے اس ملک کی اشرافیہ ہمیشہ سے ایوان اقتدار میں بادشاہوں کی طرح رہی ہے اور اس سے تعلق رکھنے والے افراد کا بودو باش اور رہن سہن ہمیشہ بادشاہوں کی طرح رہا ہے‘ اس قسم کے طرز زندگی کا ملک کے عوام کے اذہان پر کوئی اچھا تاثر نہیں پڑا اور وہ بھی اسراف کا شکارہوئے ہیں‘ اس چھوٹی سی بات کو اگر ارباب اقتدار اور عوام اپنے پلے باندھ لیتے اور اپنی آ مدنی اور اخراجات میں توازن رکھتے تو معاشی طور پر وطن عزیز کبھی بھی اس مخدوش حالت کاشکار نہ ہوتا، کہ جس کا وہ اکثر رہا ہے۔اگر اقوام متحدہ کی نگرانی میں سرینگر میں اگلے روز ہونے والے واقعے کی تحقیقات ہو جائے تو ہندوستان کو دنیا میں کافی شرمندگی اور خفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس کا جھوٹ فاش ہو سکتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ ہندوستان کی سات لاکھ فوج جو سرینگر میں تعینات ہے وہ کیا کر تھی کہ وہ مٹھی بھر مبینہ دہشت گردوں کو گرفتار نہ کر سکی‘یہ واقعہ ایک ڈرامے سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھا جو بھارت نے سندھ طاس منصوبے کا پانی پاکستان پر بند کرنے کے واسطے کوئی جواز پیدا کر نے کے لئے رچایا اور چونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس کا یہ ڈرامہ چل نہ سکا۔ امریکی صدر ٹرمپ کی امیگریشن کی نئی پالیسی کی راہ میں امریکہ کی عدلیہ آ ڑے آرہی ہے یہ اگر امریکہ کے سیاسی میدان میں حکمرانوں کی قابلیت کا زوال نہیں تو اور کیا ہے کہ یا ایک دور تھا جب ابراھام لنکن اور روزویلٹ جیسے نابغے وائٹ ہاؤس کے مکین ہوا کرتے تھے اور جان فاسٹر ڈلس اور ڈاکٹر کسنجر جیسے معاملہ فہم اور دنیا کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے جہاں دیدہ افراد ان کے مشیر اور یا پھر ٹرمپ جیسا لاابالی آج امریکہ کا صدر ہے اور ایلن مسک جیسا کھلنڈرا شخص اس کا ایڈوائزر۔